کیا نماز جنازہ کی تکرار جائز ہے؟

مسئلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ اگر کچھ لوگ نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکیں تو کیا وہ دوبارہ نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟
نیز اگر جنازہ موجود نہ ہو تو نماز کا کیا حکم ہے؟
دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں

جوابـ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ نماز جنازہ میں تکرار جائز نہیں البتہ بعض صورتوں میں ولی میت کو پڑھنے کی اجازت ہے

اگر ولی میت نے نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی اس کی اجازت سے پڑھی گئی بلکہ ایسے لوگوں نے پڑھی تھی کہ جن کو حق تقدم حاصل نہ تھا تو ولی میت دوبارہ پڑھ سکتا ہے ،اور اس کے ساتھ وہ لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں جو پہلے نہیں تھے

در مختار میں ہے

یقدم فی الصلٰوۃ علیہ السلطان اوامیر المصر ثم القاضی ثم امام الحی ثم الولی فان صلی غیرالولی من لیس لہ حق التقدم علی الولی ولم یتابعہ الولی اعادالولی ولوعلی قبرہ ان شاء لاجل حقہ لا لاسقاط الفرض ولذا قلنا لیس لمن صلی علیھا ان یعید مع الولی لان تکرارھاغیرمشروع وان صلی من لہ حق التقدم کقاض اونائبہ اوامام الحی اومن لیس لہ حق التقدم وتابعہ الولی لایعید ا

میّت کی نمازپڑھنے میں مقدم بادشاہ یاولیِ شہر ہے پھر قاضی پھر امامِ محلہ پھر ولی–اگر ولی کے علاوہ ایسے شخص نے جس کو ولی پر تقدم کا حق حاصل نہیں، نمازِ جنازہ پڑھ لی اور ولی نے اس کی متابعت نہ کی تو ولی اگر چاہے تو دوبارہ پڑھ سکتا ہے خواہ قبر پر ہی پڑھے اسے یہ اختیار اپنے حق کے سبب ہے اس لئے نہیں کہ فرضِ جنازہ ادا نہ ہوا تھا، اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ پہلے جو پڑھ چکے تھے وہ ولی کے ساتھ ہوکر دوبارہ نہیں پڑھ سکتے۔
 اس لئے کہ نماز جنازہ کی تکرار جائز نہیں اور اگر پہلے ایسے شخص نے پڑھی جسے ولی پر تقدم کا حاصل ہے جیسے قاضی یا نائب قاضی یا امامِ محلہ یا ایسے شخص نے پڑھ لی جسے حقِ تقدم حاصل نہیں مگر ولی نے اس کی متابعت کر لی تھی تو دوبارہ نہیں پڑھ سکتا ۔

امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن تحریر فرماتے ہیں
 مذہب مہذّب حنفی میں جبکہ ولی عــــہدنماز پڑھ چکا یا اس کے اذن سے ایك بار نماز ہوچکی(اگرچہ یونہی کہ دوسرے نے شروع کی ولی شریك ہوگیا) تو اب دوسروں کو مطلقًا جائز نہیں، نہ ان کو جو پڑھ چکے نہ اُن کو جو باقی رہے۔ائمۂ حنفیہ کا اس پر اجماع ہے، جو اس کا خلاف کرے مذہبِ حنفی کا مخالف ہے۔تمام کُتبِ مذہب متون وشروح وفتاوٰی اس کی تصریحات سے گونج رہی ہیں ۔

اس مسئلہ کی پوری تحقیق وتنقیح فقیر کے رسالہ النھی الحاجز عن تکرار صلٰوۃ الجنائز میں بفضلہ بروجہ اتم ہوچکی ہے یہاں صرف نصوص وعبارات ائمہ و علمائے حنفیہ خصہم اللہ تعالٰی بالطافہ الخفیہ ،ذکر کریں اور از انجاکہ یہ تحریرفائدہ جدیدہ سے خالی نہ ہو، ان میں جدّت وزیادت کا لحاظ رکھیں،
وباللہ التوفیق یہاں کلام بنظرِ انتظام عــــہد مرام چندانواع پر خواہان انقسام
 نوع اوّل:نماز جنازہ دوبارہ روا نہیں۔
درمختار میں ہے:
تکرارھا غیر مشروع
نماز جنازہ کی تکرار جائز نہیں۔
غنیـہ شرح منیہ میں ہے
تکرار الصلٰوۃ علٰی میّت واحد غیر مشروع
ایك میت پر دوبارہ نماز ناجائز ہے۔
 درمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبع مجتبائی دہلی 

 غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی الجنائز سہیل اکیڈمی لاہور 

(فتاویٰ رضویہ ج 9 ص 318)

 بہار شریعت ج 1 ح 4 نماز جنازہ کے بیان میں ہے کہ

ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اورولی نے اُسے اجازت بھی نہ دی تھی تو ا گر ولی نماز میں شریک نہ ہوا تو نماز کا اعادہ کر سکتا ہے اور اگر مردہ دفن ہوگیا ہے تو قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر وہ ولی پر مقدم ہے جیسے بادشاہ و قاضی و امام محلہ کہ ولی سے افضل ہو تو اب ولی نماز کا اعادہ نہیں کر سکتا اور اگرایک ولی نے نماز پڑھا دی تو دوسرے اولیا اعادہ نہیں کر سکتے

اور ہر صورت اعادہ میں جو شخص پہلی نماز میں شریک نہ تھا وہ ولی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور جو شخص شریک تھا وہ ولی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا ہے کہ جنازہ کی دو مرتبہ نماز ناجائز ہے سوا اس صورت کے کہ غیر ولی نے بغیر اذن ولی پڑھائی۔
 (عالمگیری، درمختار وغیرہما)

اگر جنازہ سامنے نہ ہو تو نماز جنازہ جائز نہیں

کیوں کہ مذہب حنفی میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا، پڑھنا نا جائز گناہ ہے حضور علیہ السلام صحابہ کرام کی نماز جنازہ کا بہت احترام فرماتے تھے یہاں تک کہ اگر کسی وقت اندھیری رات یا دوپہر کی گرمی کے سبب صحابہ کرام حضور علیہ السلام کو اطلاع نہ دیتے اور دفن کر دیتے تو حضور ان پر غائبانہ نماز جنازہ نہ پڑھتے بلکہ ارشاد فرماتے
 لا تفعلوا ادعونی لجنائزکم
 کہ ایسا نہ کیا کرو بلکہ اپنے جنازوں کے لئے مجھے بلا لیا کرو
(ابن ماجہ)

ملخصا فتاویٰ فیض الرسول ج 1 کتاب الجنائز ص447

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
 مذہب مہذب حنفی میں جنازہ غائب پر بھی محض ناجائز ہے ۔ائمہ حنفیہ کا اس کے عدمِ جواز پر بھی اجماع ہے خاص ا سکا جزئیہ بھی مصرح ہونے کے علاوہ تمام عبارات مسئلہ اولٰی بھی اس سے متعلق کہ غالبًا نمازِ غائب کو تکرار صلواۃ جنازہ لازم۔بلاد اسلام میں جہاں مسلمان انتقال کرے نماز ضرور ہوگی،اوردوسری جگہ خبر اس کے بعد ہی پہنچے گی۔

ولہذاامام اجل نسفی نے کافی میں اس مسئلہ کو اس کی فرع ٹھہرایا،اگرچہ حقیقۃً دونوں مستقل مسئلے ہیں۔اب اس مسئلہ کی نصوص خاصہ لیجئے ، اور بہ نظر تعلق مذکور
سلسلہ عبارات بھی وہی رکھئے
( ۲۰۸) فتح القدیر(۲۰۹) حلیہ(۲۱۰) غنیـہ(۲۱۱) شلبیہ(۲۱۲) بحرالرائق(۲۱۳) ارکان میں ہے:

وشرط صحتہا اسلام المیت وطہارتہ وضعہ امام المصلی فلھذا القیدلاتجوز علی غائب [1]۔

صحتِ نماز جنازہ کی شرط یہ ہے کہ میّت مسلمان ہو طاہر ہو، جنازہ نمازی کے آگے زمین پررکھا ہو ۔اسی شرط کے سبب کسی غائب کی نماز جنازہ جائز نہیں۔

حلیہ کے لفظ یہ ہیں

شرط صحتھا کونہ موضوعاامام المصلی ومن ھنا قالوا لاتجوز الصلٰوۃ علی غائب مطلقا۔

نمازِ جنازہ کی شرائطِ صحت سے ہے جنازہ کا مصلّی کے آگے ہونا۔اسی لئے ہمارے علماء نے فرمایا کہ مطلقًا کسی غائب پر نماز جائز نہیں۔

 

متن تنویرالابصارمیں ہے

شرطہا وضعہ امام المصلی

جنازہ کا نمازی کے سامنے ہونا شرطِ نماز جنازہ ہے۔

(۲۱۵) برہان شرح مواہب الرحمن طرابلسی(۲۱۶) نہر الفائق (۲۱۷) شرنبلالیہ علی الدرر(۲۱۸) خادمی (۲۱۹) ہندیہ(۲۲۰) ابوالسعود ۔ (۲۲۱) درمختار میں ہے :

شرطھا حضورہ فلاتصح علٰی غائب

جنازہ کاحاضر ہونا شرطِ نماز ہے لہذا کسی غائب پر نمازِ جنازہ صحیح نہیں۔

 متن نورالایضاح میں ہے 

شرائطہا اسلام المیت وحضورہ

صحتِ نمازِجنازہ کی شرطوں سے ہے میّت کا مسلمان ہونا اور نمازیوں کے سامنے حاضر ہونا۔

 متن ملتقی الابحر میں ہے: لایصلی علی عضو ولاعلی غائب  
میّت کا کوئی عضو کسی جگہ ملے تو اس پر نماز جائز نہیں ،نہ کسی غائب پر جائز ہے۔

 فتح القدیر فصل فی الصلٰوۃ علی المیت مکتبہ نوریہ رضویہ ۲/۸۰،غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی الجنائز سہیل اکیڈمی لاہور ص۵۸۳ 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب

 

 

کیا نماز جنازہ کی تکرار جائز ہے؟

Kya Namaz e Janaza Ki Takrar Jaiz Hai?

About حسنین مصباحی

Check Also

امام مقتدیوں سے اونچائی پر ہو تو کیا حکم ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *