ادنی درجہ کا مطلب یہ ہےکہ تین مرتبہ کہہ لینے سے سنت کا تحقق ہوجائے گا
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے
و يسن “تسبيحه” أي الركوع “ثلاثًا” لقول النبي صلى الله عليه وسلم: “إذا ركع أحدكم فليقل ثلاث مرات، “سبحان ربي العظيم” و ذلك أدناه، و إذا
سجد فليقل: “سبحان ربي الأعلى” ثلاث مرات و ذلك أدناه”، أي أدنى كماله المعنوي و هو الجمع المحصل للسنة لا اللغوي و الأمر للاستحباب
(كتاب الصلوة، فصل فى بيان سننها، ص:265، دارالكتب العلميہ بیروت)
تنوير الابصار مع الدر المختار” میں ہے
(و يسبح فيه) و أقله (ثلاثا) فلو تركه أو نقصه كره تنزليها (كره تنزيها) کے تحت خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی رقم طراز ہیں
و صرحوا بأنه يكره أن ينقص عن الثلاث و أن الزيادة مستحبة بعد أن يختم على وتر خمس أو سبع ما لم يكن إماما فلا يطول، وقدمنا في سنن الصلاة عن أصول أبي اليسر أن حكم السنة أن يندب إلى تحصيلها و يلام على تركها مع حصول إثم يسير و هذا يفيد أن كراهة تركها فوق التنزيه و تحت المكروه تحريما. وبهذا يضعف قول البحر إن الكراهة هنا للتنزيه لأنه مستحب و إن تبعه الشارح وغيره فتدبر
(رد المحتار مع الدر المختار و تنویر الابصار، ج:1، ص: 494، دار الفکر بیروت )
تنویر الابصار مع الدر المختار” میں ہے
(وليس بينهما ذكر مسنون، وكذا) ليس (بعد رفعه من الركوع) دعاء، و كذا لايأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح (على المذهب) و ما ورد محمول على النفل
(كتاب الصلوة، باب صفة الصلوة، ج:1، ص:505، دار الفكر بيروت )
فقیہ فقید المثال امام احمد رضا خان قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں ”سنت مؤکدہ کا ترک ایک آدھ بار مورث عتاب ہے مگر گناہ نہیں ہاں ترک کی عادت کرے تو گنہ گار ہوگا
(فتاوی رضویہ مخرجہ، ج:2، ص: 85)
سنت مؤکدہ کی تعریف اور اس کا حکم بیان کرتے ہوئے حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی قدس سرہ رقم طراز ہیں ” سنّتِ مؤ کدہ : وہ جس کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو ،البتہ بیانِ جواز کے واسطے کبھی ترک بھی فرمایا ہو یا وہ کہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی ہو مگر جانبِ ترک باِلکل مسدود نہ فرمادی ہو، اس کا ترک اساء ت اور کرنا ثواب اور نادراً ترک پر عتاب اور اس کی عادت پر استحقاقِ عذاب
(بہار شریعت،حصہ دوم، کتاب الطھارۃ، ج:1، ص:283، مجلس المدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی۔)
واللہ تعالٰی اعلم