مسئلہ
السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام
مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں
زکوۃ کی رقم دارالعلوم میں صرف کرنے کےلئے ۔کیا حیلئہ شرعی ضرور ی ہے؟
اس حیلۂ شرعی کی حکمت کیا ہے؟ زید کا کہناہے کہ کسی فقیر ومسکین کے ہاتھ سے حیلئہ شرعی کرنےکے بجائے کیوں نہ ہم خود طالب علم یا ا ن کےوالد کے ہاتھ زکوۃ کی رقم تھما دیں
دریافت امر یہ ہےکہ کیا زید کا قول درست ہے؟ کیا اس طرح زکوۃ ادا ہوجائے گی؟
قرآن وحدیث کی کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
المستفتی محمد حضیرالدین مصباحی
ناظم اعلی دارالعلوم اہل سنت انوار مصطفی شاہ پورا گوگاواں ضلع کھرگون مدھیہ پردیش
جوابـ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
صورت مستفسرہ میں زکوٰۃ کی رقم دارالعلوم میں خرچ کرنے کے لئے حیلہ شرعی ضروری ہے اگر بغیر حیلہ شرعی کے خرچ کی گئی تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی کیونکہ ادائگی زکوٰۃ میں تملیک فقیر شرط ہے جو کہ بغیر حیلہ شرعی کے مفقود ہو گی۔
(فتاویٰ فیض الرسول ج ١ ص ٤٩)
:صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
بغیر تملیک کے زکوٰۃ ادا نہیں ہو سکتی
پھر تحریر فرمایا
بہت سے لوگ مال زکوٰۃ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ متولی مدرسہ کو اطلاع دیں کہ یہ مال زکوٰۃ ہے تاکہ متولی مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلبہ پر صرف کرے کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی
(بہار شریعت ج 1 ح 5 زکوٰۃ کا بیان)
حیلہ شرعی کی حکمت یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحقین تک پہنچ جائے پھر وہ جس کام میں چاہیں خرچ کریں۔
اگر طالب علم یا اس کے والد فقیر شرعی ہوں تو وہ بھی حیلہ شرعی کر سکتے ہیں ورنہ نہیں کیوں کہ تملیک فقیر شرط ہے۔
(عامہ کتب فقہ)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب