کافر کو کافر کہنے کا حکم

سوال

کافر کو کافر کہنا چاہئے
اس پر قرآن وسنت سے چند دلیلوں کی ضرورت ہے عطا ہو

 سائل محمد نعیم امجدی علیمی

جوابـ
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
ایک یہ وبا بھی پھیلی ہوئی ہے کہتے ہیں کہ ہم تو کافر کو بھی کافر نہ کہیں گے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہو گا یہ بھی غلط ہے قرآنِ عظیم نے کافر کو کافر کہا اور کافر کہنے کا حکم دیا۔

قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْن

اور اگر ایسا ہے تو مسلمان کو بھی مسلمان نہ کہو تمھیں کیا معلوم کہ اسلام پر مرے گا خاتمہ کا حال تو خدا جانے مگر شریعت نے کافر
مسلمان کا امتیا ز رکھا ہے اگر کافر کو کافر نہ جانا جائے تو کیا اس کے ساتھ وہی معاملات کروگے جو مسلم کے ساتھ ہوتے ہیں حالانکہ بہت سے امور ایسے ہیں جن میں کفار کے احکام مسلمانوں سے بالکل جدا ہیں مثلاً ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھنا، ان کے لیے استغفار نہ کرنا ،ان کو مسلمانوں کی طرح دفن نہ کرنا، ان کو اپنی لڑکیاں نہ دینا، ان پر جہاد کرنا، ان سے جزیہ لینا اس سے انکار کریں تو قتل کرنا وغیرہ وغیرہ۔
بعض جاہل یہ کہتے ہیں کہ ’’ہم کسی کو کافر نہیں کہتے، عالم لوگ جانیں وہ کافر کہیں ‘‘ مگر کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ عوام کے تو وہی عقائد ہونگے جو قرآن و حدیث وغیرہما سے علما نے انھیں بتائے یا عوام کے لیے کوئی شریعت جدا گا نہ ہے جب ایسا نہیں تو پھر عالمِ دین کے بتائے پر کیوں نہیں چلتے نیزیہ کہ ضروریات کا انکار کوئی ایسا امر نہیں جو علما ہی جانیں عوام جو علما کی  صحبت سے مشرف ہوتے رہتے ہیں وہ بھی ان سے بے خبر نہیں ہوتے پھر ایسے معاملہ میں پہلو تہی اور اعراض کے کیا معنی
(بہار شریعت ج ٢ ح ٩ص ٤٥٨/٥٩)

 

قطعی کافر کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے

:صدر الشریعہ علیہ الرحمہ مزید فرماتے ہیں

مسلمان کو مسلمان، کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے، اگرچہ کسی خاص شخص کی نسبت یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان یا معاذاللہ کفر پر ہوا، تاوقتیکہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو، مگر اس سے یہ نہ ہوگا کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کُفر میں شک کیا جائے، کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے۔ خاتمہ پر بِنا روزِ قیامت اور ظاہر پر مدار حکمِ شرع ہے۔

اس کو یوں سمجھو کہ کوئی کافر مثلاً یہودی یا نصرانی یا بُت پرست مر گیا تو یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفر پر مرا، مگر ہم کواللہ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)کا حکم یہی ہے کہ اُسے کافر ہی جانیں. اس کی زندگی میں اور موت کے بعد تمام وہی معاملات اس کے ساتھ کریں جو کافروں کے لیے ہیں. مثلاً میل جول، شادی بیاہ، نمازِ جنازہ، کفن دفن، جب اس نے کفر کیا تو فرض ہے کہ ہم اسے کافر ہی جانیں اور خاتمہ کا حال علمِ الٰہی پر چھوڑیں, جس طرح جو ظاہراً مسلمان ہو اور اُس سے کوئی قول و فعل خلافِ ایمان نہ ہو، فرض ہے کہ ہم اسے مسلمان ہی مانیں ، اگرچہ ہمیں اس کے خاتمہ کا بھی حال معلوم نہیں ۔

اِس زمانہ میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ میاں جتنی دیر اسے کافر کہو گے، اُتنی دیر اللہ اللہ کروکہ یہ ثواب کی بات ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافرکافر کا وظیفہ کرلو۔۔۔؟! مقصود یہ ہے کہ اُسے کافر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً کافر کہو،نہ یہ کہ اپنی صُلحِ کل سے اس کے کُفر پر پردہ ڈالو۔

بہار شریعت ج ١ ح ١ ایمان و کفر کا بیان ص ١٨٦/٨٧

جو کسی منکرِ ضروریات دین کو کافر نہ کہے آپ کافر ہے ،

:امام علامہ قاضی عیاض قدس سرہ ’’ شفا شریف‘‘ میں فرماتے ہیں

الإجماع علی کفر من لم یکفر أحداً من النصاری والیہود و کلّ من فارق دین المسلمین أو وقف في تکفیرھم أو شک،قال القاضي أبو بکر: لأنّ التوقیف والإجماع اتفقا علی کفرھم فمن وقف في ذلک فقد کذب النص والتوقیف أو شک فیہ، والتکذیب والشک فیہ لا یقع إلاّ من کافر

یعنی اجماع ہے اس کے کفر پر جو یہود ونصاری یا مسلمانوں کے دین سے جدا ہونی والےکو کافر نہ کہے یا اس کے کافر کہنے میں توقف کرے یا شک لائے، امام قاضی ابوبکر باقلانی نے اس کی وجہ یہ فرمائی کہ نصوص شرعیہ و اجماعِ امت ان لوگوں کے کفر پر متفق ہیں تو جو ان کے کفر میں توقف کرتا ہے وہ نص وشریعت کی تکذیب کرتا ہے یا اس میں شک رکھتا ہے اور یہ امر کافر ہی سے صادر ہوتا ہے۔

اسی میں فرماتے ہیں

کفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ الإسلام أو وقف فیھم أو شک أو صحح مذھبھم وإن أظھر الإسلام واعتقد إبطال کل مذھب سواہ فھو کافر بإظھار ما أظھر من خلاف ذلک

 ملخصاًیعنی کافر ہے جو کافر نہ کہے ان لوگوں کو کہ غیر ملت اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں یا ان کے کفر میں شک لائے یا ان کے مذہب کو ٹھیک بتائے اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا اور مذہب اسلام کی حقانیت اور اس کے سواسب مذہبوں کے بطلان کا اعتقاد ظاہر کرتاہوکہ اس نے بعض منکر ضروریات دین کو جب کہ کافر نہ جانا تواپنے اس اظہار کے خلاف اظہار کر چکا

 ’’الفتاوی الرضویۃ   ج۱۵، ص۴۴۳۔۴۴۴۔وانظر ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۱، ص۳۷۸۔ ’’ فتاوی رضویہ‘‘ میں ہے )
 ( اللہ عزوجل نے کافر کو کافر کہنے کا حکم دیا:

قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ

اے نبی فرمادیجئےب اے کافرو

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب

محمد ذیشان رضا مصباحی

Kafir ko Kafir Kehne Ka Hukm?

کافر کو کافر کہنے کا حکم؟

About حسنین مصباحی

Check Also

مصنوعی بال اور دانت لگوانا کیسا ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *