بزرگوں کے نام سے چراغ جلانا کیسا ہے؟

سوال

 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بزرگوں کے نام سے جو چراغ جلائے جاتے ہیں یہ درست ہے یا نہیں ؟
 المستفتی : اصغر حسین پیلی بھیت

 
جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ 
بزرگوں کے نام پر گھروں وغیرہ میں چراغ جلانا جائز ہے جب کہ اس سے مقصود یہ ہو کہ اہل خانہ یا راہ گیر کو فائدہ پہونچے یا دینی تعلیم حاصل کرنے پڑھنے پڑھانے والوں کو راحت ملے یا کسی جگہ ذکر و شکر عبادت و تلاوت کرنے والوں کو اس سے نفع پہونچے اور اندھیرے کی وحشت و تکلیف سے محفوظ رہیں تو ایسی روشنیاں کرنا بلا شبہ جائز ہے اور اسکا ثواب اولیاء اللہ کو ملے بلکہ نیت مستحسن ہونے کی وجہ سے مستحسن اور ثواب ہے اور اگر ان میں سے کوئی بات بھی نہیں اور نہ اس کی کوئی حاجت ہے تو چراغ جلانا فضول خرچی اور اسراف ہے جو ممنوع ہے
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ
 و لا تسرفوا انه لا یحب المسرفین
 یعنی بیشک بےجا خرچنے والے اسے پسند نہیں
 ( پ 8 سورہ اعراف آیت 31 )
اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے کہ
اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّه کَفُوۡرًا
یعنی بیشک اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے
 ( پ 15 سورہ بنی اسرائیل آیت 27 )

اور فتاوی رضویہ میں ہے کہ ” یہ وجہ ( اسراف و اتلاف مال ) صرف قبور عوام میں پائی جاتی ہے جبکہ وہاں نہ مسجد نہ قبر سرراہ نہ کوئی تلاوت وغیرہ میں مشغول. بخلاف مزار کرام کہ وہاں قبر یعنی خشت گل کی تعظیم نہیں بلکہ انکی روح کریم کی تعظیم ہے
جیساکہ امام نابلسی نے فرمایا کہ ” تعظیما لروحه المشرفة الخ
 (ماخوذ فتاوی رضویہ قدیم ج 4 ص 158 : رضا اکیڈمی ممبئی)
البتہ جس جگہ کسی بزرگ نے بیٹھ کر عبادت کی ہو ، یا کسی بزرگ کی قبر مبارک ہو تو وہاں بطورِ تعظیم چراغ جلانا جائز ہے جیسا کہ
 
 روح البیان فی تفسیر القرآن میں ہے
 
ایقاد القنادیل و الشمع عند قبور أولیاء و الصلحاء من باب التعظیم و الا جلال ایضاً للاولیاء فألمقصد فیھا مقصد حسن و نذر الزيت و الشمع للالياء يوقد عند قبورهم لهم و محبة فيهم جائز ايضا لا ينبغي النهى عنه 
یعنی أولیاء وصلحاء کی قبور مبارک پر چراغ جلانا جائز ہے کہ یہ ان کی تعظیم ہے، اور یہ اچھا مقصد ہے 
 (روح البیان فی تفسیر القرآن ج 3 ص 420 سورہ توبہ ، دار الکتب العلمیہ بیروت) 
 اور امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے امام عارف باللہ سیدی عبد الغنی نابلسی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب مستطاب حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ سے نقل فرمایا کہ اگر شمعیں روشن کرنے میں فائدہ ہو کہ موضع قبور میں مسجد ہے یا قبور سر راہ ہیں یا وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے یا مزار کسی ولی اللہ یا محققین علماء میں سے کسی عالم کا ہے وہاں شمعیں روشن کریں ان کی روح مبارک کی تعظیم کےلئے جو اپنے بدن کی خاک پر ایسی تجلی ڈال رہی ہے جیسے آفتاب زمین پر، تاکہ اس روشنی کرنے سے لوگ جانیں کہ یہ ولی کا مزار پاک ہے تاکہ اس سے تبرک حاصل کریں اور وہاں اللہ عز و جل سے دعا مانگیں کہ ان کی دعا قبول ہو تو یہ امر جائز ہے اس سے اصلاً ممانعت نہیں ، اور اعمال کا مدار نیتوں پر ہے 
 
 (فتاوی رضویہ ج 9 ص 490 : رضا فاؤنڈیشن لاہور)
 مذکورہ باتوں سے واضح ہوا کہ بلا ضرورت بزرگوں کے نام سے چراغ جلانا جائز نہیں ہاں اگر ان کا چلہ گاہ ہو یا کسی بزرگ کا مزار ہو تو وہاں بطور تعظیم جلانا جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو چراغ روشن کرنا فضول اور اسراف ہے
 
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 
 


کریم اللہ رضوی

خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی

 

بزرگوں کے نام سے چراغ جلانا کیسا ہے؟

Buzurgon Ke Name Se Charagh Jalana Kaisa

About حسنین مصباحی

Check Also

مصنوعی بال اور دانت لگوانا کیسا ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *