سوال
جواب
اساتذہ و مشائخ علوم دین و شریعت کا عزو وقار اور مرتبہ آبائے جسمانی سے کہیں بلند ترہے لہذا مجازاً انہیں ابو یا والد کہنے میں حرج نہیں۔
البتہ انکی شان عزت و حرمت اس سے کہیں وری ہے، اور عموماً یہ انکے لئے مستعمل بھی نہیں، انہیں پکارنے کیلئے انکے درجات ومراتب عالیہ کے لحاظ سے ایسے الفاظ والقاب چنے جن سے انکی شان و عظمت کا کما حقہ اظہار ہوسکے، جیسے حضور و حضرت والا جاہ، قبلہ و کعبہ و مربی من، آقا و مولی وغیرہ۔
:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اساتذہ وشیوخ علوم شرعیہ بلاشبہ آبائے معنوی وآبائے روح ہیں جن کی حرمت وعظمت آبائے جسم سے زائد ہے کہ وہ پدر آب وگل ہے اور یہ پدر جان ودل، علامہ مناوی تیسیر جامع صغیر میں فرماتے ہیں
من علم الناس ذاك خیراب۔ ذا ابو الروح لا ابوالنطف
یعنی استاد کا مرتبہ باپ سے زیادہ ہے کہ وہ روح کا باپ ہے، نہ نطفہ کا۔
(التیسیر شرح جامع الصغیر تحت حدیث انما انا لکم بمنزلۃ الوالد الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۳۶۱)
علامہ حسن شرنبلالی”غنیہ ذوی الارحام”حاشیہ”درر وغرر”میں فرماتے ہیں
الوالد ھو والد التربیۃ فرتبتہ فائقۃ رتبۃ والد التبنیۃ
یعنی اعلٰی درجہ کا باپ استاد مربی ہے۔ اس کا مرتبہ پدر نسب کے مرتبہ سے زائد ہے۔(غنیہ ذوی الاحکام حاشیۃ علی الدررالحکام))
عین العلم شریف میں ہے
یبر الوالدین فالعقوق من الکبائر، ویقدم حق المعلم علی حقہما فہو سبب حیاۃ الروح
ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرے کہ انہیں ناراض کرنا گناہ کبیرہ ہے اور استاد کے حق کو ماں باپ کے حق پر مقدم رکھے کہ وہ زندگی روح کا سبب ہے۔(عین العلم الباب الثامن فی الصحبۃ والمؤلفۃ مطبع امرت پریس لاہور ص۳۵۔۳۳۳)
امام شعبہ المقاصد الحسنۃ تحت حدیث ۱۱۶۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۴۲۱ میں فرماتے ہیں
ماکتبت عن احد حدیثا الا وکنت لہ عبدا ماحیی
میں نے جس کسی سے ایك حدیث بھی لکھی میں عمر بھر اس کاغلام ہوں۔
(فتاویٰ رضویہ جدید ج 19 ص451 مکتبہ روح المدینہ اکیڈمی)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
خاک پائے علماء ابو فرحان مشتاق احمد رضوی