سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سود کسے کہتے ہیں اور اس کی تعریف کیا ہے؟ نیز دور حاضر میں لوگ مکان بنانے کے لئے وقت ضرورت بینک سے لون لیتے ہیں جسےHOME LOAN کہا جاتا ہے بینک اگر بیس لاکھ روپیہ دیتا ہے تو واپس تیس لاکھ روپیہ لیتا ہے تو دس لاکھ روپیہ یہ سود ہوگا یا نہیں؟
بینک سے بوقت ضرورت ھوم لون لینا درست ہے کہ نہیں؟اگر کسی امام صاحب نے ہوم لون لیا تو ازروئے شرع انپر کیا حکم جاری ہوگا
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں کرم ہو گا
سائل: خان شبر اقبال رضوی خضر پور کولکاتا ٢٣
جواب
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
فقہاء کرام فرماتے ہیں
الربا ھو الفضل المستحق لأحد المتعاقدین في المعاوضة الخالی عن عوض شرط فیه
یعنی سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو
ہندوستان کے کفار حربی ہیں جیسا کہ حضرت ملا جیون رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں” ان هم إلا حربى وما يعقلها الا العالمون’‘
الربا ھو الفضل المستحق لأحد المتعاقدین في المعاوضة الخالی عن عوض شرط فیه
یعنی سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو
ہندوستان کے کفار حربی ہیں جیسا کہ حضرت ملا جیون رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں” ان هم إلا حربى وما يعقلها الا العالمون’‘
(تفسیرات احمدیه ص ٣٠٠)
اور حدیث شریف میں ہے لا ربو بین المسلم والحربی، کہ مسلمان اور کافر حربی کے درمیان سود نہیں ہوتا. لہذا مال موذی نصیب غازی سمجھ کر یہاں کے بینکوں سے نفع لینا جائز ہے لیکن دینا منع ہے کہ اس میں کفار کا فائدہ ہے اور کافروں کو فائدہ پہنچانا ممنوع ہے . ہاں اگر کسی کے پاس ضروری رہائشی مکان نہیں ہے اور اس کے پاس دیگر اسباب بھی موجود نہیں ہیں کہ جن سے ضروری رہائشی مکان بنوا سکے
اور کہیں سے ہوم لون کے بغیر قرض حسن بھی نہ مل رہا ہو تو اس صورت میں اسے مجبورا ضروری رہاٸشی مکان بنوانے کے لئے بینک سے ہوم لون لینے کی اجازت ہوگی
جیسا کہ الاشباہ و النظائر میں ہے کہ
الضرورات تبیح المحظورات اھ
(الأشباہ والنظائر صفحہ ٣٠٧)
اور کہیں سے ہوم لون کے بغیر قرض حسن بھی نہ مل رہا ہو تو اس صورت میں اسے مجبورا ضروری رہاٸشی مکان بنوانے کے لئے بینک سے ہوم لون لینے کی اجازت ہوگی
جیسا کہ الاشباہ و النظائر میں ہے کہ
الضرورات تبیح المحظورات اھ
(الأشباہ والنظائر صفحہ ٣٠٧)
لہذا مذکورہ جزئیہ سے یہ ثابت ہوا کہ ضرورتا جبکہ مباح مال نہ ملتا ہو تو بینک سے ہوم لون لینا جائز ہے
اور ایسی صورت میں ایسے امام کی امامت بھی درست ہے
اور ایسی صورت میں ایسے امام کی امامت بھی درست ہے
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد عمران خان قادری غفر لہ
نہروسہ ،پہلی بھیت یوپی انڈیا
Sood ki Tareef wa Bank se Len Den Kaisa?
سود کی تعریف نیز بینک سے لون لینا کیسا ہے؟