مسئلہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہکیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں
کیا حضور علیہ السلام نے تراویح کی نماز پڑھائی؟
حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
جوابـ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور علیہ السلام نے تین دن تک نماز تراویح پڑھائی
عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم خَرَجَ لَیْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَصَلَّی فِي الْمَسْجِدِ، وَصَلَّی رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوْا، فَاجْتَمَعَ أَکْثَرُ مِنْهُمْ، فَصَلَّی فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوْا، فَکَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَصَلَّی فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا کَانَتْ اللَّیْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّی خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَی الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَتَشَهَدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَمْ یَخْفَ عَلَيَّ مَکَانُکُمْ وَلَکِنِّي خَشِیْتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْهَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ.
(صحیح بخاری باب قیام شھر رمضان ج 2 ص 694)
’’حضرت عروہ سے روایت ہے کہ اُنہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدھی رات کے وقت باہر تشریف لے گئے اور مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور کتنے ہی لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا چرچا کیا تو دوسرے روز اور زیادہ لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔
صبح ہوئی تو لوگوں نے چرچا کیا۔ پس مسجد میں حاضرین کی تعداد تیسری رات میں اور بڑھ گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو نمازی مسجد میں سما نہیں رہے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز کے لیے تشریف لائےجب نمازِ فجر پڑھ چکے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا تمہاری موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی لیکن میں تم پر نمازِ تراویح فرض ہو جانے اور تمہارے اس سے عاجز آ جانے سے ڈر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک لوگوں کو تراویح پڑھائی پھر لوگوں کے شدت ذوق وشوق کو دیکھ کر اس اندیشہ سے پڑھنا ترک فرمادیا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے کہ لوگوں کو مشقت ہوگی،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کے دور خلافت میں فتنوں کی کثرت اورمدت خلافت کی قلت کی بنا پر اس سنت عظیمہ کے قیام کا موقع نہ مل سکا، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس سنت کو جاری فرمادیا۔
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں
تراویح مرد و عورت سب کے لیے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اس کا ترک جائز نہیں ۔ (درمختار وغیرہ)
اس پر خلفائے راشدین رضی ﷲ تعالیٰ عنہم نے مداومت فرمائی اور نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کہ ’’میری سنت اور سنت خلفائے راشدین کو اپنے اوپر لازم سمجھو۔‘‘ اور خود حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے بھی تراویح پڑھی اور اسے بہت پسند فرمایا۔
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، ارشاد فرماتے ہیں : ’’جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ سے اور ثواب طلب کرنے کے لیے، اس کے اگلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے یعنی صغائر۔‘
‘ پھر اس اندیشہ سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے ترک فرمائی پھر فاروق اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ رمضان میں ایک رات مسجد کو تشریف لے گئے اور لوگوں کو متفرق طور پر نماز پڑھتے پایا کوئی تنہا پڑھ رہا ہے، کسی کے ساتھ کچھ لوگ پڑھ رہے ہیں ، فرمایا: میں مناسب جانتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کر دوں تو بہتر ہو، سب کو ایک امام ابی بن کعب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اکٹھا کر دیا پھر دوسرے دن تشریف لے گئے ملاحظہ فرمایا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں فرمایا نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ یہ اچھی بدعت ہے۔
رواہ اصحاب السنن
( بہار شریعت ج 1 ح 4 ص 688)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد ذیشان رضا مصباحی
لکھیم پور کھیری یوپی