عورت کے عدت گزارنے میں کیا حکمت ہے؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ شریعت میں عدت کیوں رکھی گئی ہے
قرآن و حدیث کے حوالے سے جواب عنایت فرمائیں
 سائل محمد اشرف رضا قادری جھارکھنڈ
 
جواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب 
سب سے پہلی بات تو یہ کہ عدت گزارنا شریعت کا حکم ہے جو ہر مطلقہ اور متوفیٰ عنھا زوجھا پر لازم ہے
 ارشاد باری تعالیٰ ہے 


وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍؕ 
اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک 

(سورۃ البقرہ الآیۃ ٢٢٨)
 

وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ 

اور تم میں جو مریں اور بیویاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں 

(سورۃ البقرہ الآیۃ ٢٣٤)
 عدت گزارنے میں کئی مفید حکمتیں ہیں ان میں سے 
پہلی اور بنیادی حکمت ” براءت رحم” ہے یعنی عدت یہ جاننے کے لئے ہے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں اور اس کی ضرورت اس لئے پڑی تاکہ نسب مخلوط نہ ہو یعنی کسی کا بچہ کسی کی طرف منسوب نہ ہو جائے کیونکہ نسب میں لوگ کنجوسی کرتے ہیں یعنی اپنا بچہ دوسرے کی طرف منسوب نہیں ہونے دیتے اور تمام عقلمند (نسب) اولاد کے طلبگار ہوتے ہیں، اور نسب نوع انسانی کی خصوصیت ہے اس کے ذریعے انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے، مسائل استبراء میں بھی یہ مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہے
 دوسری حکمت یہ ہے کہ اس سے نکاح کی اہمیت دوبالا ہو جاتی ہے یعنی نکاح لوگوں کے اجتماع میں ہوتا اس سے نکاح کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے اسی طرح جب نکاح ختم کیا جاتا ہے تو ایک لمبے انتظار (عدت) کے بعد عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے اس سے بھی نکاح کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، ورنہ نکاح بچوں کا کھلونا ہو جائے جس سے جب چاہا دل بہلا لیا پھر توڑ دیا
 تیسری حکمت ” ہمیشگی کا پیکر” بنانا ہے کیونکہ نکاح کی مصلحتیں اس وقت مکمل ہوتی ہیں جب زوجین بظاہر اس کو باقی رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں. پھر جب نکاح ختم ہو تب بھی ہمیشگی کا پیکر بنانا ضروری ہے. اور اس کی صورت یہ ہے کہ نکاح ختم ہونے کے بعد عورت اتنی مدت انتظار کرے جس کی کوئی اہمیت ہو
 حجۃ اللہ البالغہ میں ہے
 

اعلم ان العدۃ کانت من المشهورات المسلمة في الجاہلية وکانت مما لا يکادون يترکونه وکان فيھا مصالح کثیرة

 منھا:معرفة براءة رحمھا من مائه لئلا تختلط الأنساب فإن النسب أحد ما یتشاح به و یطلبه العقلاء وھو من خواص نوع الإنسان ومما إمتاز به من سائر الحیوان وھو المصلحة المرعیة فی باب الإستبراء 
ومنھا:التنویه بفخماۃ بأمر النکاح حیث لم یكن أمرا إلا بجمع رجال، ولا ینفك إلا بانتظار طویل ولو لأ ذلك لکان بمنزلة لعب الصبيان ینتظم ثم ینفک فی الساعة
 ومنھا:أن مصالح النکاح لا تتم حتی يوطنا أنفسھما علی ادامة ھذا العقد ظاہراً فإن حدث حادث یوجب فك النظام لم یکن بد من تحقیق صورۃ الادامة فی الجملة

(حجۃ اللہ البالغہ باب العدۃ ص ٢١٩ تا ٢٢٠/دار الجمیل) 
 
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


حقیر محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور محمدی لکھیم پور کھیری

 ٢٤/جمادی الاولیٰ ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *