دوران عدت عورت کمانے کے لئے باہر جا سکتی ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کا کچھ دنوں پہلے انتقال ہوگیا اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں گھر کے سوا کوئی جائیداد بھی نہیں ہے تو ایسی حالت میں اس کی بیوی چار مہینہ دس دن کی عدت پوری کرے یا بچوں کی کفالت کیلئے کوئی دوکان وغیرہ کر سکتی ہے؟
 المستفتی محمد رضا :کانپور یوپی انڈیا
 
جواب


الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 صورت مستفسرہ میں مذکور مرحوم کی بیوی پر چار مہینہ دس دن عدت گزارنا واجب ہے. لیکن ایسی عورت کو شریعت نے رخصت دی ہے وہ پردے کا اہتمام کرتے ہوئے دن میں اور رات کے کچھ حصے میں کوئی دوکان یا نوکری کر سکتی ہے مگر رات کا اکثر حصہ گھر میں گزارے
” در مختار” میں ہے
 
(ومعتدۃ موت تخرج في الجدیدین وتبیت) أکثر اللیل (فی منزلھا) لأن نفقتھا علیھا فتحتاج للخروج حتی لو کان عندھا کفایتھا صارت للمطلقة لا یحل لھا الخروج” فتح” وجوز في ” القنیة” خروجھا لإصلاح ما بد لھا منه کزراعة ولا وکیل لھا
در مختار کتاب الطلاق فصل فی الحداد ص ٢٥٠/دار الکتب العلمیہ
 ” فتاویٰ عالمگیری” میں ہے
 

المتوفی عنھا زوجھا تخرج نھارا و بعض اللیل ولا تبیت في غیر منزلھا کذا في الھداية 

فتاویٰ عالمگیری کتاب الطلاق باب الحداد ص ٥٥/دار الکتب العلمیہ
 صدر الشریعہ بدر الطريقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :موت کی عدت میں اگر باہر جانے کی حاجت ہو کہ عورت کے پاس بقدر کفایت مال نہیں اور باہر جا کر محنت، مزدوری کرکے لائیگی تو کام چلے گا تو اسے اجازت ہے کہ دن میں اور رات کے کچھ حصے میں باہر جائے اور رات کا اکثر حصہ اپنے مکان میں گزارے مگر حاجت سے زیادہ باہر ٹھہرنے کی اجازت نہیں

بہار شریعت ج. ٢ ح ٧ ص:٢٤٧/مجلس المدینۃ العلمیہ/ایپلیکیشن

 
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد غفران مصباحی غفر لہ

لکھیم پور کھیری یو پی انڈیا 

 ١٧/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *