سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے کہ
زید کو کہیں سے ۲۰ روپے پڑے ہوئے ملے اور اس نے وہ لے لئے تو کیا زید ان کو اپنے خرچ میں استعمال کر سکتا ہے مفصل جواب عنایت فرمائیں
سائل۔ محمد یوسف رضا گجرات
جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
لقطہ (پڑا ہوا مال) اٹھانے کی چار صورتیں ہیں ١ یہ خیال کہ پڑے پڑے ضائع ہو جائے گا اور میں اٹھا کر مالک کو دے دوں گا تو اٹھا لینا مستحب ہے ٢ غالب گمان ہو کہ پڑے پڑے ہلاک ہو جائے گا تو اٹھا لینا ضروری ہے ٣یہ اندیشہ کہ خود ہی رکھ لوں گا تو نہ اٹھانا بہتر ہے ٤غالب گمان ہو کہ میں ہی رکھ لوں گا تو اٹھانا حرام ہے
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
پڑا ہو امال کہیں ملا اور یہ خیال ہو کہ میں اس کے مالک کو تلاش کرکے دیدوں گا تو اُٹھا لینا مستحب ہے اور اگر اندیشہ ہوکہ شاید میں خود ہی رکھ لوں اور مالک کو نہ تلاش کروں تو چھوڑ دینا بہتر ہے اور اگر ظن غالب ہو کہ مالک کو نہ دونگا تو اُٹھا نا نا جائز ہے اور اپنے لیے اُٹھانا حرام ہے اور اس صورت میں بمنزلہ غصب کے ہےاور اگر یہ ظن غالب ہو کہ میں نہ اُٹھا ؤں گا تو یہ چیز ضائع و ہلاک ہو جائے گی تو اُٹھا لینا ضرور ہے لیکن اگر نہ اٹھاوے اور ضائع ہو جائے تو اس پر تاوان نہیں
(بہار شریعت ج ٢ح ١٠)
(ھکذا فی ’ردالمحتار‘‘،کتاب اللقطۃ،ج۶،ص۴۲۲۔)
لقطہ کا حکم ملتقط پر لازم ہے کہ مالک کو تلاش کرے اعلانات، اخبارات کے ذریعے اس کی تشہیر کرے جب غالب گمان ہو جائے کہ اب مالک نہیں آئے گا تو اب اسے اختیار ہے چاہے تو لقطہ کی حفاظت کرے اور چاہے تو صدقہ کر دے مسکین کو دینے کے بعد اگر مالک آگیا تو اسے اختیار ہے کہ صدقہ کو جائز کردے یا نہ کرے اگر جائز کر دیا ثواب پائے گا اور جائز نہ کیا تو اگر وہ چیزموجود ہے اپنی چیز لے لے اور ہلاک ہوگئی ہے تو تاوان لے گا
(مستفاد از بہار شریعت)
بغیر تشہیر کے خود لقطہ کا مال کھا لینا حرام ہے اور اس کے بارے میں احادیث مبارکہ میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں
وَعَنِ الْجَارُودِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّار
رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
روایت ہے حضرت جارود سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمان کی گم شدہ چیز آگ کی چنگاری ہے.
یعنی جو مسلمان کی گمی چیز بدنیتی سے اٹھائے کہ مالک کو پہنچانے کاارادہ نہ ہو خیانت کی نیت ہو وہ دوزخی ہے اگرچہ ذمی کافر کا لقطہ بھی کھانا جائز نہیں مگر مسلمان کےلقطہ میں ڈبل عذاب ہے اس لیے خصوصیت سے اس کا ذکر ہوا
(مرآۃ المناجیح ج ٤ ص ٤٢٠)
بزار ودارقطنی نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ،کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے لقطہ کے متعلق سوال ہوا؟ ارشاد فرمایا: ’’لقطہ حلال نہیں اور جو شخص پڑا مال اٹھائے اُسکی ایک سال تک تشہیر کرے، اگر مالک آجائے تو اسے دیدے اور نہ آئے تو صدقہ کر دے
سنن الدارقطنی،ج۴،ص۲۱۵
امام احمد و ابو داود و دارمی عیاض بن حمار رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی،
کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’جو شخص پڑی ہوئی چیز پائے تو ایکی ا دو عادل کو اُٹھاتے وقت گواہ کرلے اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے پھر اگر مالک مل جائے تو اُسے دیدے، ورنہ اللہ (عزوجل) کا مال ہے، وہ جسکو چاہتا ہے دیتا ہے۔‘‘
(’’سنن أبيداود‘‘،کتاب اللقطۃ، باللقطۃ،الحدیث:۱۷۰۹،ج۲،ص۱۹۰۔)
اس حدیث میں گواہ کرلینے کا حکم اس مصلحت سے ہے کہ جب لوگوں کے علم میں ہوگا تو اب اس کانفس یہ طمع نہیں کرسکتا کہ میں اِسے ہضم کر جاؤں اور مالک کو نہ دوں اور اگر اس کا اچانک انتقال ہو جائے یعنی ورثہ سے نہ کہہ سکا کہ یہ لقطہ ہے تو چونکہ لوگوں کو لقطہ ہونا معلوم ہے ترکہ میں شمار نہیں ہوگی اور یہ بھی فائدہ ہے کہ مالک اس سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ یہ چیز اتنی ہی نہ تھی بلکہ اس سے زیادہ تھی۔
خلاصہ صورت مسئولہ میں سائل تشہیر کرے پھر بھی مالک نہ ملے تو مسکین پر صدقہ کر دے اور اگر خود مسکین ہو تو اپنے صرف میں بھی لا سکتا ہے
لیکن اگر بعد میں مالک آئے اور مطالبہ کرے تو ضمان دینا پڑے گا
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد ذیشان مصباحی