سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین اس مسلہ کے بارے میں کہ زید جو کہ اپنے آپکو سنی بھی کہلاتا ہے اور حاجی بھی ہے اسکے علاوہ دین کی کچھ سمجھ بھی رکھتا ہے اور یہ بھی اسکو معلوم ہے کہ وہابی دیوبندی اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے کافر ہیں لیکن زید کا ساڑھو وہابی ہے اور زید کے سسرال والے صلح کلی ہیں زید اپنے ساڑھو کے تعلق سے کہتا ہے کہ وہ وہابی تو ہیں ہم انکو سنی نہیں کہتے لیکن وہ اچھا وہابی ہے ہم اسکو کافر نہیں کہں گے اور زید اپنے ساڑھو کے لڑکے کے ساتھ اپنی لڑکی کا عقد کرنے کے خیال میں ہے اور کئی مرتبہ اپنے والدین کو آپسی باتوں کی وجہ سے مارنے کی بھی دھمکی دی ہے اور الٹے سیدھے الفاظ بھی کہے ہیں لہذا زید کے با رے میں شریعت کا کیا حکم ہے اور اگر زید کو اسکا باپ اپنے مال و زمین میں حصہ نہ دے باقی بیٹوں کے درمیان تقسیم کردے تو شرعا کوئ جرم تو نہیں
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین کرم ہوگا
سائل غلام رسول ضلع لکھیم پور کھیری یوپی
جواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
زید سنی صحیح العقیدہ کو اپنے وہابی ساڑھو اور دیگر صلح کلی رشتہ داروں پر وہابیہ دیابنہ کے عقائد کفریہ پیش کرتے ہوئے ان سے معاملہ صاف کرلینا چاہیے اگر وہ لوگ ان باطل عقائدو نظریات کی تردید کرتے ہوئے من شك فی کفرہ وعذابه فقد کفر، کے تحت ان سے بیزاری کا اعلان کریں اور مذہب اہلسنت وجماعت کو فی الواقع اپنائیں تو سبحان اللہ، ان سے رشتے داری بنانے قائم رکھنے میں حرج نہیں اور اگر وہ انکے عقائد باطلہ جاننے سمجھنے ان پر خوب مطلع ہونے کے بعد بھی انہیں کے ساتھ رہیں تو ان سے کسی بھی طرح کا تعلق ورشتہ درست نہیں بلکہ خود کو مشکوک کرانا، اور دنیاو آخرت کی آفت میں مبتلا کرنا ہے۔ شریعت مطہرہ میں کافرو مرتد ہی سے رشتہ و نکاح ممنوع نہیں بلکہ مطلقاً ہر بد مذہب سے اسکی ممانعت وارد ہے۔ لہذا زید کے وہابی ساڑھو کا لڑکا جس سے زید اپنی بیٹی کا نکاح کرنا چاہتا ہے اگر وہ بھی بد مذہب ہے تو دنیاوی بہت سی خوبیاں اور اچھائیاں ہوتے ہوئے بھی ان سے رشتہ قائم کرنا عند الشرع جائز نہ ہوگا
حدیث شریف میں ہے
عن انس رضی الله عنه عن النبی صلی الله علیه وسلم لا تجالسوھم ولا تشاربوھم ولا تواکلوھم ولا تناکحوهم
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انکے پاس نہ بیٹھو، ساتھ پانی نہ پیو، ساتھ کھانا نہ کھاؤ شادی بیاہ نہ کرو
(فتاویٰ رضویہ قدیم ج٦ ص ١٠٣)
رہا زید بدبخت کا اپنے والدین کی بے حرمتی کرنا انہیں سخت وسست الفاظ کہنا معاذاللہ انہیں مارنے تک کی دھمکی دینا یہ اسکی سخت محرومی و ارتکاب کبیرہ ہے والدین سے بد کلامی تو بہت بڑی و بری بات ہے قرآن کریم نے انکے سامنے اف تک کی بھی اجازت نہیں دی
ارشاد باری تعالی ہے
وقضی ربك أن لا تعبد إلا ایاہ وبالوالدین احساناً اما یبلغن عندك الکبر احدھما اوکلاھما فلا تقلهما اف ولا تنهرھما وقل لهما قولا کریما
اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اسکے سوا کسی کو نہ پوجو، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تیرے سامنے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں “اف تک” نہ کہنا اور نہ جھڑکنا اوران سے تعظیم سے بات کہنا
حدیثِ شریف میں ہے: والدین کی رضا میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور انکی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے
دوسری حدیث میں ہے: والدین کا فرمان بردار جہنمی نہ ہوگا اور انکا نافرمان کچھ بھی عمل کرلے گرفتار عذاب ہوگا تحت الآیۃ المذکورۃ
(تفسیر خزائن العرفان)
ایسے میں زید کو چاہیے کہ سچی توبہ کرے اور فورا والدین سے اپنا قصور معاف کرا کرآئندہ حتی المقدور انکی خدمت کرتا رہے اور کبھی بھی انکی ناراضگی کا سبب نہ بنے
اور جائداد میں باپ مختار ہے اپنی زندگی میں چاہے دے یا نہ دے یا کسی بیٹے کو کم کسی کو زیادہ کسی کو کل یا بالکل نہ دے، جسکو جتنے کا مالک کردیگا اور وہ اس پر قابض ہو جائیگا اتنا اسی کا ہوگا، لیکن باپ ایسا کرنے سے گنہگار ہوگا۔ درمختار کتاب الہبہ میں ہے: ولو وھب فی صحته کل المال للولد جاز واثم، اھ
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من فر من میراثه وارثه قطع الله میراثه من الجنة یوم القیمة، جو اپنے وارث کو اپنا ترکہ پہنچنے سے بھاگے اللہ تعالیٰ روز قیامت جنت سے اسکی میراث قطع فرمادیگا
اشباہ میں ہے: لو قال الوارث ترکت حقی لم یبطل حقه، اگر وارث کہے میں نے اپنا حصہ چھوڑا تو اس سے اسکا حق باطل نہ ہوگا
(فتاویٰ رضویہ جدید ج ١٨ ص ١٦٩ تا ١٧٠)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب