مشت زنی کرنا کیسا ہے؟

سوال

الســـلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مشت زنی کا شرعی حکم کیا ہے، اگر زنا میں مبتلا ہونے کا غالب گمان ہو تو ایسے شخص کو مشت زنی کرنے کی اجازت ہے کہ نہیں بکر کا کہنا ہیکہ ایسی صورت میں مشت زنی کر سکتا ہے تو کیا بکر کا قول درست ہے 
 قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
   سائل محمد انور خان رضوی علیمی پتہ شراوستی یوپی
 
جواب

الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ 
مشت زنی فعل حرام ہے اسکا فاعل مستحق لعنت ہے حدیث شریف میں ہے ناکح الید ملعون اس سے بچنے کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے بہتر بیوی یا شرعی کنیز بتائی ہے انکے علاوہ ناجائز و حرام ہے فمن ابتغی وراء ذالك فاولئك ھم العادون جو اسکے سوا اور کوئی طریقہ ڈھونڈیں وہی حد سے بڑھنے والے ہیں (سورہ معارج ٣١)
لہذا جس پر شہوت غالب ہو اسے چاہئے کہ فوراً نکاح کرے
البتہ اگر یہ نہ ہوسکے اور کہیں کسی بھی طرح سکون میسر نہ ہو اور واقعی غالب گمان ہو کہ ایسا نہ کریگا تو زنا یا لواطت میں مشغول ہو ہی جائیگا تو ایسے میں صرف بغرض تسکین شہوت نہ کہ بقصد تحصیل لذت و قضائے شہوت اگر یہ فعل واقع ہو تو امید کی جاتی ہیکہ اللہ تعالی مواخذہ نہ فرمائیگا: والله یعلم المفسد من المصلح، اور اللہ تعالیٰ اچھے برے کا خوب جاننے والا ہے.  ساتھ ہی اس پر واجب ہیکہ اگر قدرت رکھتا ہو تو فوراً نکاح کی فکر وکوشش کرے ورنہ سخت گنہگارو مستحق لعنت ہوگا۔ یہ اجازت اس لئے نہیں کی اس فعل بد کا عادی بنے اور خدا ورسول کے پسندیدہ طریقے کے بجائے اسی پر اکتفاء و قناعت کرے 
طریقہ محمدیہ میں ہے
 
اما الاستمناء فحرام إلا عند شروط ثلثة ان یکون عزب وبه شبق و فرط شهوۃ بحیث لولم یفعل ذلك لحملته شدۃ الشهوۃ علی الزنا او اللواط والشرط الثالث ان یرید به تسکین الشهوۃ لا قضائھا
مشت زنی حرام ہے مگر تین شرائط کے ساتھ جواز کی گنجائش ہے۔ (١) مجرد “غیر شادی شدہ” ہو اور غلبۂ شہوت ہو۔ (٢) شہوت اسقدر ہو کہ بدکاری زنا یا لونڈے بازی وغیرہ کا اندیشہ ہو۔ ( ٣) تیسری شرط یہ ہیکہ اس سے محض تسکین شہوت مقصود ہو نہ کہ حصول لذت
 ماخوذ از فتاویٰ رضویہ جدید ج ٢٢ ص٢٠٢، مكتبه روح المدینہ اکیڈمی
 درمختار میں ہے
 

قوله الاستمناء حرام أي بالکف إذا کان لاستجلاب الشھوة أمّا إذا غلبته الشھوة ولیس له زوجة ولا أمة ففعل ذلک لتسکینها فالرجاء أنه لا وبال علیه کما قاله ابو اللیث الخ 

(در مختار کتاب الحدود) 
 الحاصل مذکورہ بالا عبارات کی روشنی میں بکر کا قول درست ہے، لیکن ایسا شخص اگر قدرت رکھتا ہو تو جلد ازجلد نکاح کرے اور اسکی استطاعت نہ ہو تو روزہ کی کثرت کرے
 درمختار شرح تنویر الابصار ج ٢ ص ١٨٥، مطبع مجتبائی دہلی میں ہے یکون (ای) واجبا عند التوقان غلبہ شہوت کے وقت نکاح کرنا واجب ہے نیز حدیثِ مبارکہ میں ہے


قال رسول الله ﷺیا معشر الشباب من استطاع منکم الباءة فلیتزوج فإنه اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فلعیه بالصوم فانه له وجاء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ائے گروہ نوجوانان! تم میں جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرے کہ نکاح پریشان نظری وبدکاری روکنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے اور جسے ناممکن ہو اس پر روزے لازم ہیں کہ کسر شہوت نفسانی کردیں گے 
 صحیح البخاری کتاب النکاح، ج ٢ ص٧٥٨ صحیح مسلم کتاب النکاح، ج ١ ص٤٤٩، قدیمی کتبخانہ پشاور
 
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


خاک پائے علماء ابو فرحان مشتاق احمد رضوی


جامعہ رضویہ فیض القرآن سلیم پور نزد کلیرشریف اتراکہنڈ
 ١٠/محرم الحرام ١٤٤٣ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

مصنوعی بال اور دانت لگوانا کیسا ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *