طلاق کسے کہتے ہیں، کیا طلاق کے لئے گواہوں کاہو نا ضروری ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان اسلام اس مسئلہ کے بارے میں
کہ طلاق کسے کہتے ہیں، کیا طلاق دیتے وقت گواہوں کا ہونا ضروری ہے،اگر طلاق دینے والا انکار کرے کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے اور بیوی کہے کہ مجھے طلاق دی ہے تو ایسی صورت کس کے قول کا اعتبار کیا جائے گا ؟
سائل۔ محمد سہیل رضا قادری لکھیم پوری
 

جواب

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 الجواب بعون الملک الوھاب
 طلاق کا لغوی معنی ہے،دور ہونا، چھوٹنا، قید کو ہٹانا وغیرہ
اور اصطلاحی تعریف ہے، 

و ه‍و رفع قيد النكاح في الحال او المآل بلفظ مخصوص

(در مختار، كتاب الطلاق ص ٢٠٥/دار الکتب العلمیہ)
 فتاویٰ ہندیہ میں ہے
 

اما تفسيرہ شرعا فھو رفع قید النکاح حالا او مالا بلفظ مخصوص کذا في البحر الرائق


(فتاویٰ ہندیہ ج ١ کتاب الطلاق ص ٣٨٢ /دار الکتب العلمیہ)
 حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں
 نکاح سے عورت شوہر کی پابند ہو جاتی ہے اس پابندی کے اٹھا دینے کو طلاق کہتے ہیں۔اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اسی وقت نکاح سے باہر ہوجائے اس کو (بائن) کہتے ہیں دوسری یہ کہ عدت گزرنے پر باہر ہو اسے (رجعی) کہتے ہیں
 طلاق دینا جائز ہے مگر بے وجۂ شرعی ممنوع ہے، اور وجہ شرعی ہو تو مباح بلکہ بعض صورتوں میں مستحب مثلاً عورت اس کو یا اوروں کو ایذا دیتی نماز نہیں پڑھتی ہے۔ 

(بہار شریعت ج ٢ ح ٨ طلاق کا بیان)
 اور طلاق کے لئے عورت کا سننا یا گواہوں کا ہونا ضروری نہیں۔
فتاویٰ علیمیہ میں “درمختار” اور “فتاویٰ رضویہ” کے حوالہ سے ہے 
 طلاق واقع ہونے کے لئے زوجہ یا کسی دوسرے کا سننا ضروری نہیں۔ بس شوہر کا الفاظ طلاق کو اتنی آواز سے کہنا ضروری ہے جو اس کے کانوں تک پہنچنے کے قابل ہو۔
 ایسا ہی در مختار کے حوالے سے فتاویٰ رضویہ ج٥ص٦١٩ پر مرقوم ہے۔ 

(فتاویٰ علیمیہ ج ٢ص١٦٥) 
 اور اگر عورت کہتی ہے کہ اس کے شوہر نے طلاق دی ہے تو محض عورت کے کہنے سے وقوع طلاق ثابت نہ ہوگا جب تک دو عادل گواہوں کے ذریعے ثابت نہ ہو جائے،
جیسا کہ فتاویٰ علیمیہ میں “فتاویٰ رضویہ”کے حوالے سے ہے ۔
جب تک دو عادل گواہوں کے ذریعے ہندہ کو اس کے شوہر کا طلاق دینا متحقق اور ثابت نہ ہو جائے۔ صرف ہندہ کے بیان سے عند الشرع طلاق ثابت نہ ہوگی ہاں اگر بکر نے واقع میں طلاق دی ہے اور اب جھوٹ انکار کرتا ہے تو اب اس کا وبال اور سخت عذاب و گناہ اس پر ہے۔ البتہ اگر ہندہ کو یقین ہے کہ اس کے شوہر نے طلاق دی ہے تو وہ ہر ممکن کوشش سے چھٹکارا حاصل کرے اور شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ دے۔ 
ایسا ہی سیدی اعلٰی حضرت امام احمد رضا قادری نے فتاویٰ رضویہ ج ٥ ص ٦٦٤ میں مرقوم فرمایا ہے

 (فتاوی علیمیہ ج ٢ص١٧٢) 
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


فقیر محمد مبارك امجدی غفر لہ

محمدی لکھیم پور کھیری

About حسنین مصباحی

Check Also

شوہر بیوی کے پاس بھی نہ جاتا ہو اور طلاق بھی نہ دیتا ہو تو کیا حکم ہے؟

h سوال السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ  کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *