سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان اسلام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنی نے سنی کا نکاح وہابی مولوی کی وکالت سے کروایا تو نکاح ہوا یا نہیں
مدلل جواب ارشاد فرما دیں
ساٸل ۔ محمد الطاف حسین عطاری ریاسی
جواب
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون المک الوھاب
نکاح ایجاب و قبول کا نام ہے اگر بالغ لڑکا، لڑکی بذات خود گواہان کی موجودگی میں نکاح کرلیں تو بھی نکاح ہو جائے گا نکاح میں وکیل محض سفیر ہوتا ہے.اور وکالت کے لئے اسلام شرط نہیں
جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد ثالث ص٤٣٩ میں ہے
تجوز وكالة المرتد بان وكل مسلم مرتدا وكذا لو كان مسلماً وقت التوكيل ثم ارتد فھو على وكالته إلا أن يلحق بدار الحرب فتبطل وكالته
مسلمان نے مرتد کو وکیل بنایا یا مسلمان کو وکیل بنایاوہ بعد میں مرتد ہوگیا تو یہ وکالت باقی رہے گی، مگر جب وہ دارالحرب بھاگ جائے تو وکالت ختم ہوجائے گی،
اور بدائع الصنائع جلد سادس ص ٦٠میں ہے
ردة الوكيل لا تمنع صحة الوكالة-
حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں
اگر کوئی ہندو مشرك زوجین کو ایجاب وقبول رو بروئے گواہان کرا دے اور شرائط صحت متحقق ہوں نکاح ہوجائے گا۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١١ ص ٢١٨،١٩)
مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ وہابی کی وکالت سے نکاح ہو جائے گا. لیکن وہابیوں کو ہرگز ہرگز وکیل نہ بنایا جائے کہ وہ کافر و مرتد ہیں اور مرتد سے کسی قسم کا کوئی معاملہ جائز نہیں
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد صدام حسین مصباحی
بھنگا شراوستی