حضور علیہ السلام کو کالی کملی والے کہنا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کملی والا کہنا کیسا ہے جیسے (کملی والے کا نام لے لے کر بے سہارے سلام کہتے ہیں. حاجیوں مصطفی سے کہہ دینا غم کے مارے سلام کہتے ہیں)
 مدلل جواب عنایت فرمائیں
 سائل: سیف رضا قنوج یوپی 

جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
 الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
 صورت مسؤلہ میں یہ جان لیں کہ نبی اکرم ﷺ کے لئے لفظ ”کملی والے” کا استعمال کرنے سے بچنا لازم ہے
اس کے متعلق فقیہ اعظم ہند علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں
”کملی” کمبل کی تصغیر ۔ایک قسم کی اونیٰ پوستیں جو بکریاں اور بھیڑوں کی کھال سے تیار کی جاتی ہے اسے غریب ودرویش لوگ پہنا کرتے ہیں

 (فرہنگ آصفیہ جلد دوم ص ٥٦٥)
 ”کملی” کمبل کی تصغیر 

 (فیروز اللغات ص ٦٧٧)
 چھوٹا کمبل بناءً علیہ نبی اکرم ﷺ کے لباس کو کملی کہنا ممنوع ہے
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں
مجرد ايھام المعنی المحال کاف للمنع
کسی ناروا معنی کا ایہام منع کے لیے کافی ہے
 فتاوی شامی جلد ٩ کتاب الحظر والاباحۃ /باب الاستبراء وغیرہ ص ٥٦٧ دارالکتب العلمیہ لبنان
 اس کی نظیر راعنا ہے عربی زبان میں یہ مراعات باب مفاعلت سے امر کا صیغہ ہے جس کے ساتھ ضمیر منصوب جمع متکلم ہے جس کے معنی عربی زبان میں یہ ہیں ”ہماری رعایت فرماٸیں”
(یہود کی لغت میں راعی کے معنی احمق کے ہیں )نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کو جب صحابۂ کرام اچھی طرح سن نہ پاتے یا سمجھ نہ پاتے تو عرض کرتے ”راعنا” (ہماری رعایت فرمائیں ) اور یہود کی لغت میں راعی کے معنی احمق کے ہیں یہ گستاخ قوم اپنی فطری بدباطنی کی وجہ سے نبی اکرم ﷺکو راعنا کہتے ۔ اور قران شریف میں راعنا کہنے سے منع فرمایا گیا ہے اور انھیں اس بات کی ہدایت کردی گئی کہ بجائے ”راعنا” کے ”انظرنا”کہو۔ ارشاد ربانی ہے
 
یا ایھاالذین آمنوا لاتقولوا راعنا وقولوا انظرنا۔
اے ایمان والوں !راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں ۔

 (القران الکریم پارہ ١ سورۃالبقرہ آیت ١٠٤) 
 یہاں لغات دو ہیں تلفظ بھی الگ الگ تھا پھر بھی منع فرمایا گیا اور یہاں کملی میں ایک ہی زبان میں تصغیر ہے اگرچہ دوسرا معنی بھی ہے اس لیے یہ بدرجۂ اولی ممنوع ہوگا اگر چہ بولنے والے کی نیت تصغیر نہ ہو دوسرا معنی ہو ۔اس لیے کہ معاذ اللہ اگر تصغیر کی نیت سے بولےگا تو کفر ہے اور یہاں کملی میں ایک ہی لغت ہے تصغیر کا بھی معنی ہے اس لیے بدرجہ اولی ممنوع ہوگا یہ حکم اس وقت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو مطلقاً کملی والے کہا جائے لیکن نبی اکرم ﷺ کبھی چھوٹا کمبل بھی استعمال فرماتے تھے ۔
اب اگر حدیث میں اس کو بیان کرنے کے لیے کوٸی تلفظ وارد ہو تو اس کے ترجمہ میں کملی استعمال کیا جاسکتاہے۔
اسی طرح بعض صوفیاۓ کرام چھوٹا کمبل استعمال فرماتے تھے اس کے ذکر میں کملی استعمال کرنے میں کوٸی حرج نہیں ہے ۔
 ان دونوں صورتوں میں متعین ہے کہ کملی تصغیر کے لیے نہیں بلکہ بیان واقعہ ہے لیکن نبی اکرم ﷺ کو مطلقاً کملی والے کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے عام لباس کو کملی کہا۔
حالانکہ نبی اکرم ﷺ کا عام لباس کمبل نہیں ۔
علاوہ ازیں حضرات انبیاء کرام کا ذکر ایسی صفات سے کرنا ممنوع ہے جس میں کوٸی فضیلت نہ ہو جیساکہ شفاء اور اس کی شروح میں مذکور ہے یعنی حضور کے محاسن بیان کرنے کے دوران جیساکہ لوگ کملی والے کا استعمال کیا کرتے ہیں عموماً نعت خواں اس کو استعمال کرتے ہیں جس کا مفہوم فضاٸل و کمالات بیان کرنا ہے ظاہر ہے کملی والے ہونے میں کوٸی فضیلت نہیں ۔
 لہٰذا مقام مدح میں استعمال سے بچنا لازم و ضروری ۔
 فتاوی شارح بخاری جلد دوم باب متعلقہ نبوت ص ٥٣٥ تا ٥٣٦ 
 
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 



غلام شمس ملت:سلطان رضا شمسی

بلہاوی ضلع دھنوشا نیپال

 ٨/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

مصنوعی بال اور دانت لگوانا کیسا ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *