السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب عنایت فرمایں مہربانی ہوگی
جواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
اور جو کتب حنفیہ میں اسے مکروہ کہا گیا تو اس کے متعلق اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ حکم اس زمانِ خیر کے لئے تھا جبکہ ہمراہیانِ جنازہ تصوّرِ موت میں ایسے غرق ہوتے تھے کہ گویا میّت ان میں ہر ایک کا خاص اپنا کوئی جگر پارہ ہے بلکہ گویا خود ہی میت ہیں، ہمیں کو جنازہ پر لئے جاتے ہیں اور اب قبر میں رکھیں گے ،ولہذا علماء نے سکوتِ محض کو پسند کیا تھا کہ کلام اگرچہ ذکر ہی ہو اگرچہ آہستہ ہو، اس تصور سے کہ(بغایت نافع اور مفید اور برسوں کے زنگ دل سے دھودینے والا ہے) روکے گا یا کم از کم دل بٹ تو جائے گا تو اس وقت محض خاموشی ہی مناسب تر ہے، ورنہ حاشاللہ کہ ذکر ِخدا ورسول نہ کسی وقت منع ہے
کان رسولﷲ صلیﷲ تعالٰی علیه وسلم یذکر ﷲ تعالٰی علٰی کل احیانه رواہ مسلم وابوداؤد والترمذی وابن ماجۃ وَعَلَّقَہُ البخاری
اب کہ زمانہ منقلب ہُوا، لوگ جنازہ کے ساتھ اور دفن کے وقت اور قبروں پر بیٹھ کر لغویات وفضولیات اور دنیوی تذکروں بلکہ خندہ ولہو میں مشغول ہوتے ہیں تو انہیں ذکرِخدا و رسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف مشغول کرنا عین صواب وکارِ ثواب ہے معہذا جنازہ کے ساتھ ذکرِ جہر کی کراہت میں اختلاف ہے کہ تحریمی ہے یا تنزیہی ہے، اور ترجیح بھی مختلف آئی قنیہ میں کراہت تنزیہ کو ترجیح دی اور اسی پر فتاوٰی تتمہ میں جزم فرمایا اور یہی تجرید و مجتبی و حاوی و بحرالرائق وغیرہا کے لفظ ینبغی کا مفاد ہے اور ترک ادنی اصلاً گناہ نہیں کما نصوا علیه وحققناہ فی جمل مجلیة
اور عوام کو اللہ عزوجل کے ایسے ذکر سے منع کرنا جو شرعاً گناہ نہ ہو محض بدخواہی عام مسلمین ہے اور اس کا مرتکب نہ ہوگا مگر متقشف کہ مقاصدِ شرع سے جاہل وناواقف ہو یا متصلف کہ مسلمانوں میں اختلاف ڈال کر اپنی رفعت وشہرت چاہتا ہو، بلکہ ائمہ ناصحین تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ منع کرنا اُس منکر سے ضرور ہے جو بالاجماع حرام ہو، بلکہ تصریحیں فرمائیں کہ عوام اگر کسی طرح یادِ خدا میں مشغول ہوں ہرگز منع نہ کئے جائیں اگر چہ وہ طریقہ اپنے مذہب میں حرام ہو، مثلاً سُورج نکلتے وقت نماز حرام ہے اور عوام پڑھتے ہوں تو نہ روکے جائیں کہ کسی طرح وہ خدا کا نام تو لیں اسے سجدہ تو کریں اگر چہ کسی دوسرے مذہب پر اس کی صحت ہو سکے
فی کتاب العھود المحمدیة للشیخ الشعرانی قدسﷲ تعالٰی سرہ ینبغی لعالم الحارہ أن یعلم من یرید المشی مع الجنازۃ عدم اللغو فیھا وذکر من تولٰی وعزل عن الولاۃ أو سافر ورجع من التجار ونحو ذلک کان السلف الصالح لایتکلمون فی الجنازۃ إلا بما ورد وکان الغریب لا یعرف لغلبة الحزن علی الحاضرین کلھم وکان سیدی علی الخواص رضیﷲ تعالٰی عنہ یقول اذا علم من الماشین مع الجنازۃ انھم لایترکون اللغو فی الجنازۃ ویشتغلون بأحوال الدنیا فینبغی أن یامرھم بقول لا اله إلا ﷲ محمد رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم فان ذلك افضل من ترکه ولا ینبغی لفقیه ان ینکر ذٰلك إلا بنص أو إجماع فإن مع المسلمین الاذن العام من الشارع بقول لا اله إلا ﷲ محمد رسولﷲ فی کل وقت شاؤا ویا ﷲ العجب من عمی قلب من ینکر مثل ھذا و ربما عزم عند الحکام الفلوس حتی یبطل قول المؤمنین لا اله إلا الله محمد رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم فی طریق الجنازۃ وھو یری الحشیش یباع فلا یکلف خاطره أن یقول للحشاش حرم علیك بل رأیت فقیھا منھم یاخذ معلوم امامة من فلوس بائع الحشیش فنسأل ﷲ العافية
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد اشفاق عطاری
متعلم :جامعۃ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج نیپال