ہنود کے تہواروں کی مٹھائی کھانا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہْ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
کہ غیر مسلموں کے تہواروں مثلا ہولی دیوالی میں اگر کسی ہندو نے کسی مسلمان کو اپنے تہوار میں مٹھائی وغیرہ کھلانے کے لئے بلایا یا اس نے تہوار کے دن مٹھائی وغیرہ مسلمان کے یہاں بھیج دی یا پھر مسلمان اپنی طبیعت سے جاکے کھا آیا
 تو اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسلمان کا ہندو کے گھر جاکے مٹھائی کھانا یا ہندو کے تہوار کے دن بھیجی ہوئی مٹھائی لینا یا اپنی مرضی سے ہندو کے گھر مٹھائی وغیرہ یا اور کوئی چیز کھانا کیسا ہے؟ 
وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی 
 سائل محمد نوید رضا


جواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ 

   
 کفار جو اپنے تہواروں پر مٹھائی وغیرہ دیتے ہیں تو اس بارے میں عرض ہے کہ اس دن نہ لی جائے ہاں دوسرے دن لے سکتے ہیں لیکن تبرک سمجھ کر نہ لیں بلکہ مفت مال سمجھ کر لیں اور نہ لینا بہتر ہے 
 حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن تحریر فرماتے ہیں۔ 
 کافر اگر ہولی یا دیوالی کے دن مٹھائی دیں تو نہ لے ہاں اگر دوسرے روز دے تو لے لے مگر یہ نہ سمجھے کہ ان خبثاء کے تہوار کی مٹھائی ہے بلکہ “مال موذی نصیب غازی” سمجھے
 (ملفوظات اعلٰی حضرت ح ١ ص ١٦٣) 
 اور
حضور مفتی شریف الحق امجدی صاحب تحریر فرماتے
 ہیں
مٹھائی پرشاد سمجھ کر نہ لے نہ پرشاد سمجھ کر لینا جاٸز، نہ پرشاد سمجھ کر کھانا جاٸز، بلکہ جو اسے پرشاد سمجھے یعنی اسے تبرک جانے اس پر توبہ اور تجدید ایمان اور اگر بیوی رکھتا ہو تو تجدید نکاح لازم۔ ہاں بغیر پرشاد سمجھے اور روپیہ پیسہ ”مال موذی نصیب غازی “ سمجھ کر لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن ان کی پوجا کے دن نہ لے
 (فتاوی شارح بخاری ج ٣ ص ١٣٩ ۔) 
 اور اعلٰی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ سے سوال ہوا ہنود جو اپنے معبودان باطلہ کو ذبیحہ کے سوا اور قسم طعام وشیرنی وغیرہ چڑھاتے ہیں اور اسکا بھوگ یا پرشاد نام رکھتے ہیں اس کا کھانا شرعاً حلال ہے یا نہیں؟
اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں حلال ہے۔ مگر مسلمان کو احتراز چاہئے
 (فتاوی رضویہ ج ٩ص ٦) 
 اب رہا یہ سوال کہ ان کے ساتھ ان کے گھر جا کر کھانا کیسا ہے؟ ۔
تو اس بارے میں عرض ہے کہ اس کی اجازت نہیں ہے حضور اعلی حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں

ہندو کے ساتھ کھانا کھانے کا سوال بے معنی ہے۔ہندو کب اس کے ساتھ کھائے گا۔اور ایسا ہو تو اسےنہ چاہئے۔حدیث میں ہے

 

لاتواکلوھم ولا تشاربواھم

نہ ان کے ساتھ کھانا کھاؤ نہ ان کے ساتھ پانی پیو۔ 

 غیر مسلم چار قسم کے ہیں:کتابی،مجوسی،مشرک،مرتد،کتابی اگر کتابی ہو ملحد نہ ہوتو اس کا ذبیحۃ اور اس کے یہاں کا گوشت بھی حلال ہے اور باقیوں کے یہاں کا گوشتحرام۔اور مرتد ان میں سب سے خبیث تر ہے اس کے پاس نشست برخاست مطلقًا ناجائزہے۔اور ساتھ کھانا ہر کافر کے ساتھ برا ہے۔پھر اگر اس میں بد مذہبی کی تہمت ہوجیسے نصرانی کے ساتھ کھانا مسلمانوں کے لئے زیادہ باعث نفرت ہو تو اس کاحکم اورسخت تر ہوگا ورنہ اس اصل حکم میں کہ نہ ان کے ساتھ کھانا کھاؤ نہ پانی پیو سب برابرہیں۔ 
(فتاویٰ رضویہ ج ٢١ ص ٦٧١. المدینۃ العلمیہ) 
 مذکورہ حوالہ سے معلوم ہوا کہ کافر کے یہاں کے کھانے اور ان کے ساتھ کھانے پینے سے بچنا چاہئے
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


فقیر محمد دانش شمسی غفر لہ
محمدی لکھیم پور کھیری

About حسنین مصباحی

Check Also

مصنوعی بال اور دانت لگوانا کیسا ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *