کسی کو مذاق میں فرعون، نمرود، جاہل وغیرہ کہنا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے اہل سنت اس مسئلہ کے بارے میں کہ اپنے دوستوں کو ہنسی، مذاق میں فرعون، نمرود، دجال جاہل وغیرہ کہنا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں بہت مہربانی ہوگی
 المستفتی :محمد عارف رضا پیلی بھیت شریف
 
جواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 الجواب بعون الملک الوھاب 
بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو فرعون، نمرود، دجال جاہل وغیرہ کہنا جائز نہیں ۔یاد رہے کہ مسلمان مردو عورت کو دین ِاسلام میں یہ حق دیا گیا ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول و فعل کے ذریعہ نا حق ایذا نہ دے۔فرعون ،نمرود، دجال جاہل وغیرہ کہنا گویا کہ مسلمانوں کو تکلیف دینا ہے۔اگر کسی کو کہہ دیا ہو اور اسے تکلیف پہونچی ہو تو اس سے معافی مانگی جائے اور اس بری حرکت سے توبہ کی جائے 
 اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :”مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے” ، 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا 


وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وہ لوگ جو ایماندار مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیتے ہیں بے شک انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے ذمے لے لیا۔
 سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :’’مَنْ اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَ مَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی الله‘‘ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ 

(معجم الاوسط، باب السین، من اسمہ: سعید، ۲/۳۸۶، الحدیث: ۳۶۰۷)
 یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔
امامِ اَجل رافعی نے سیّدنا علی کَرَّمَ اللہ وَجْہَہٗ سے روایت کی، مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ مُسْلِمًا اَوْضَرَّہٗ اَوْمَاکَرَہٗ‘‘ یعنی وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے۔ 

( فتاوی رضویہ شریف ج ۲۴ ص ۴۲۵ تا ۴۲۶ رضا فائونڈیشن لاہور) 
 مزید فرماتے ہیں :کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت ِشرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو ،اسے ایذا پہنچے، شرعاً ناجائز و حرام ہے اگر چہ بات فی نفسہٖ سچی ہو۔ 
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں 


من دعا رجلا بغیر اسمہ لعنته الملائکة فی التیسیر ای بلقب یکرھا لا بنحو یا عبدﷲ
جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں تیسیر میں ہے یعنی کسی بد لقب سے جو اسے برا لگے نہ کہ اے بندہ خدا وغیرہ سے۔ 
بحرالرائق ودرمختار میں ہے

:فی القنیة قال لیھودی او مجوسی یا کافر یاثم ان شق علیه ومقتضاہ انه یعزر لارتکابه الاثم۔ 

(فتاوی رضویہ، رسالہ: اراء ۃ الادب لفاضل النسب، ج۲۳ ص۲۰۴ رضا فائونڈیشن لاہور)
۔۔

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


فقیر محمد اشفاق عطاری


خادم دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال 
١٩/جمادی الثانی ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

مصنوعی بال اور دانت لگوانا کیسا ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *