چوری کا کپڑا خریدنا اور اس پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

سوال

السلام عليكم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے کہ اگر کوئی شخص کوئی چیز چوری کر کے لائے مثلا کوئی کپڑا لایا اور میں اس کپڑے کو پیسے دے کر خرید لوں تو وہ کپڑا میرے لئے جائز ہو جائے گا یا نہیں
اور وہ کپڑا پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
   رہنمائی فرمائیں بہت مہربانی ہوگی – 
 سائل :محمد ساحل رضا قادری
بیسل پور پیلی بھیت شریف
 

جواب

وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
الجواب بعون المک الوہاب
 وہ کپڑا خریدنا آپ کے لئے جائز نہیں ہوگا اور اس میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی 
 چوری کا مال خریدنے کی دو صورتیں ہیں پہلی یہ کہ معلوم ہو کہ وہ چوری کا مال ہے دوسری یہ کہ گمان ہو کہ وہ چوری کا مال ہے.
دونوں صورتوں میں چوری کا مال خریدنا ناجائز و حرام ہے اگر خرید لیا ہو تو مشتری پر لازم ہے کہ مالک کو واپس کرے اگر مالک نہ ہو تو اس کے ورثاء کو اگر وہ بھی نہ ہوں تو فقراء پر صدقہ کر دے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں
چوری کا مال دانستہ خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون ہو جب بھی حرام ہے مثلا کوئی جاہل شخص کہ اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی علمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی ملك بتائے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے،پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا استعمال حرام ہے بلکہ ملاك کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو،اور ان کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء کو، 

(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٧ ص ١٦٥) 
 دوسری جگہ امام اہلسنت فرماتے ہیں
چوری کا کپڑا پہن کر نماز پڑھنے میں اگر چہ فرض ساقط ہو جائے گا لان الفساد مجاور (کیونکہ فساد نماز سے باہر ہے) مگرنماز مکروہ تحریمی ہوگی للاشتمال علی المحرم (حرام چیز اٹھائے ہوئے ہونے کی وجہ سے) کہ جائز کپڑے پہن کر اس کا اعادہ واجب
کالصلٰوۃ فی الارض المغصوبۃ سواء بسواء(جس طرح مغصوبہ زمین پرنماز کاحکم اور یہ برابرہے۔ 

(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٧ ص ٣٩٤) 
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


فقیر محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور محمدی لکھیم پور کھیری

 ١١ جمادی الاولیٰ ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

امام مقتدیوں سے اونچائی پر ہو تو کیا حکم ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *