نکاح میں باپ کا نام نہ لیا تو نکاح ہوا یا نہیں؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 حضور والا سے عرض ہے کہ
اگر کوٸی نکاح کرے (چاہے لڑکا ہو یا لڑکی)عقد نکاح کے وقت جو لڑکا یا لڑکی کے والد کانام اسکے نام کے ساتھ لیا جاتاہے
اس کے بجاۓ لڑکا یا لڑکی کے نام کے ساتھ کسی دوسرے کا نام لیا تو کیا نکاح منعقد ہوگا یا نہیں
جیسا کہ اس کو کسی نے پالنے کیلٸے لیا اور اسی کا نام بولا گیا اس کے اپنے سگے باپ کا نام نہیں لیا تو کیا حکم شرع ہے کہ نکاح ہوگا یا نہیں۔ 
جواب بحوالہ کتب معتبرہ عنایت فرماٸیں تو بہت مہربانی ہوگی
کیوں کہ نکاح ہوئے چند دن گزر چکے ہیں
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح ہی نہیں ہوا
اس لٸے آپ سے گزارش ہے کہ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
 ساٸل۔ رضا ٕالقادری پورنوی 
 

جواب

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

 الجواب بعون الملک الوھاب 
 ولدیت میں اصل والد کا نام پکارنا اور لکھنا ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ 
 

وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ 

اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا بنایایہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے اور الله حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے
 (پارہ ٢١ سورہ احزاب آیت ٤) 
 حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا 
 
من ادعى الى غير ابيه وهو يعلم انه غير ابيه فالجنة عليه حرام اھ
صحیح بخاری
صحیح مسلم
 اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ خواہ کہیں بھی پرورش میں رہے اسے اصل والد کی طرف نسبت دینا ضروری ہے بالخصوص پروف وغیرہ میں جیسے شناختی کارڈ پاسپورٹ اور فارم نکاح وغیرہ میں زیادہ احتیاط چاہئے
 (انوار الفتاوی ج ١ ص ٤١٩) 
 اب رہی بات نکاح کی تو نکاح میں لڑکی اور لڑکے کا متمیز ہونا ضروری ہے
عبد القادر ولد جعفر علی کہنا چاہئے تھا لیکن اگر نکاح پڑھانے والے نے یوں کہا کہ عبد القادر ولد جھنمن ہم نے تمہارے ساتھ فلانہ بنت فلاں کا نکاح اتنے مہر کے بدلے میں کیا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں نکاح ہو گیا اس لئے کہ جب نکاح پڑھانے والے کا مخاطب لڑکا ہو تو اس صورت میں قبول کرانے کے لئے لڑکےکا نام لینے کی حاجت ہی نہیں صرف تم یا آپ کہنا کافی ہے
البتہ اذن لیتے وقت اور اگر لڑکی نابالغہ ہو تو اس کے ولی سے اذن لیتے وقت لڑکے کا نام لینے کی حاجت ہوتی ہے تو اگر لڑکی سے اذن لیتے وقت عبد القادر ولد جھنمن کہا گیا اور لڑکی نے یہ جان کر اذن دیا کہ میں اس عبد القادر کے ساتھ نکاح کی اجازت دیتی ہوں جو جعفر علی کا لڑکا ہے اور جھنمن کی پرورش کے سبب ولد جھنمن کہہ دیا گیا ہے
تو اس صورت میں بھی نکاح ہو گیا کہ نکاح ہونے کے لئے جس کے ساتھ نکاح کیا جائے اس کا صرف متمیز ہونا ضروری ہے
ھکذا فی الجزء الخامس من الفتاوی الرضویہ
 (فتاوی فیض الرسول ج ١ ص ٢١٩) 
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد عرفان رضا قادری

بلرامپور یوپی انڈیا

About حسنین مصباحی

Check Also

لڑکا، لڑکی خود ایجاب وقبول کر لیں تو نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟

سوال   السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *