نماز میں مرد و عورت کے سجدہ کرنے کا طریقہ؟

b

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
کیا نماز میں مرد اور عورت کے سجدہ کرنے کا طریقہ الگ الگ ہے؟
اگر ہے تو کیوں؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
 سائل: عقیل خان قادری
مدھوبنی بہار 
 

جواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب 
 جی ہاں! نماز میں مرد اور عورت کے سجدہ کرنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ مرد کے لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ بازو کروٹوں سے، اور پیٹ رانوں سے جدا رکھے، اور کلائیاں زمین پر نہ بچھائے، مگر جب صف میں ہو تو بازو کروٹوں سے جدا نہ ہوں گے۔
جب کہ عورت کے سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پست ہوکر اور سمٹ کر سجدہ کرے، اس طرح کہ بازو کروٹوں سے، اور پیٹ رانوں سے، اور رانیں پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے لگی ہوئی ہونی چاہئیں۔
مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شریعت طاہرہ نے نماز میں بھی عورتوں کے پردے کا لحاظ رکھا ہے۔
 لہذا جن صورتوں میں عورتوں کی بے پردگی پائی جاتی ہے، ان میں مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کیا گیا ہے اور عورتوں کو وہ طریقہ بتایا گیا ہے جن میں ان کے لیے زیادہ پردہ ہے۔ سجدہ کے طریقے میں فرق ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر عورتیں مردوں کی طرح بلند ہوکر اور کھل کر سجدہ کریں گی تو اس صورت میں یک گونہ بے پردگی پائی جائے گی، اس لیے عورتوں کے سجدے کا طریقہ مردوں سے مختلف رکھا گیا ہے کہ اس میں ان کے لیے زیادہ پردہ ہے۔ 
 مرد اور عورت کے سجدے کی کیفیت سے متعلق “ہدایہ اولین” میں ہے
 

. ويبدي ضبعيه، لقوله عليه السلام: ” وأبد ضبعيك” ويروي: و “أبد” من الإبداد و هو: المد، والأول من الإبداء و هو: الإظهار. ويجافي بطنه عن فخذيه، لأنه عليه السلام كان إذا سجد جافى حتى أن بهمة لو أرادت أن تمر بين يديه لمرت. و قيل: إذا كان في الصف لا يجافي كيلا يؤذي جاره.
والمرأة تنخفض في سجودها و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلك أستر لها

( ہدایہ ج ١، ص ٥١ /٥٢،کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطبوعہ:بیروت لبنان) 
 تنویر الابصار مع الدر المختار “میں ہے
 

(ويظهر عضديه) في غير زحمة (و يباعد بطنه عن فخذيه) ليظهر كل عضو بنفسه، بخلاف الصفوف، فإن المقصود إتحادهم حتى كأنهم جسد واحد.(والمرأة تنخفض) فلا تبدي عضديها (و تلصق بطنها بفخذيها) لأنه أستر

(تنویر مع الدر، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج ٢ ص ٢١١ دار عالم الکتب، ریاض۔)
 ” منیۃ المصلی” اور اس کی شرح “غنیۃ المستملی” میں ہے
 

(و يبدي) في سجوده أى يظهر (ضبعيه) أى عضديه… (و يجافي) أى يباعد (بطنه عن فخذيه) ….
و هذه كيفية السجود المسنونة في حق الرجل.
وأما ( المرأة فإنها تنخفض) أى تتطامن و تتسفل في السجود (و تلزق بطنها بفخذيها) و تضم ضبعيها و هذا تفسير الإنخفاض. و ذلك لأن مبنى امرها على الستر فكان السنة في حقها ما كان أستر من الهيئات. 

( منية المصلي مع شرحه غنية المستملي، كتاب الصلاة، باب صفة الصلوة ، ص ٣٢٢ مطبوعہ در سعادت۔) 
 ” فتاویٰ ھندیہ” المعروف بہ “فتاویٰ عالمگیری”میں ہے 
 

و يضع يديه في السجود حذاء أذنيه و يوجه أصابعه نحو القبلة و كذا أصابع رجليه و يعتمد على راحتيه و يبدي ضبعيه عن جنبيه و لا يفترش ذراعيه. كذا في الخلاصة. و يجافي بطنه عن فخذيه كذا في الهداية.
والمرأة لا تجافي في ركوعها و سجودها و تقعد على رجليها و في السجدة تفترش بطنها على فخذيها. كذا في الخلاصة.

(عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع فی صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث،ج ١ س ٧٥ دار الفکر.) 
 اس حوالے سے اُردو زبان میں فقہ حنفی کی معتبر و مشہور کتاب “بہار شریعت”
 میں ہے

مرد کے لیے سجدہ میں سنت یہ ہے کہ بازو کروٹوں سے جدا ہوں، اور پیٹ رانوں سے، اور کلائیاں زمین پر نہ بچھائے، مگر جب صف میں ہو تو بازو کروٹوں سے جدا نہ ہوں گے
عورت سمٹ کر سجدہ کرے یعنی بازو کروٹوں سے ملا دے اور پیٹ ران سے، اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے

 (بہار شریعت ج ١ح ٣، نماز پڑھنے کا طریقہ، ص ٥٢٩ مطبوعہ دعوت اسلامی۔) 
 مختصر فتاویٰ اہل سنت میں ہے:
عورت کا سجدہ مردوں کے سجدے کی طرح نہیں بلکہ عورت کو حکم یہ ہے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کرے، اپنے بازو کروٹوں سے، پیٹ ران سے، ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے ملادے، اور اپنی کلائیاں زمین پر بچھا دے 
 ( مختصر فتاویٰ اہل سنت، قسط ١ ص ٥٧ فتویٰ نمبر ٤٣ پیش کش: مجلسِ افتا دعوت اسلامی۔) 
 نوٹ: یہاں اختصار کے پیش نظر صرف چند فقہی جزئیات کی روشنی میں مسئلہ دائرہ کی وضاحت کی گئی ہے، اگر اس حوالے سے احادیث مبارکہ بھی درکار ہوں، تو اس کے لیے علامہ عبد الرزاق بھترالوی علیہ الرحمہ کی شہرۂ آفاق تصنیف لطیف بنام” مرد اور عورت کی نماز میں فرق: احادیث مبارکہ کی روشنی میں ” کا مطالعہ فرمائیں۔
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد شفاء المصطفى المصباحي

المتدرب على الإفتاء بالجامعة الأشرفيه.
٢٠/ صفر المظفر ١٤٤٢

About حسنین مصباحی

Check Also

امام مقتدیوں سے اونچائی پر ہو تو کیا حکم ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *