السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
جواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
لیکن اگر چار رکعت نفل میں قعدہ ترک ہو جائے اور تیسری رکعت کے سجدہ میں جاکر یاد آئے تو قیاس کے مطابق نماز فاسد ہوجانا چاہیے کیونکہ نفل کا ہر قعدہ قعدۂ اخیرہ اور قعدۂ اخیرہ فرض ہے اور فرض کا ترک مفسد نماز ہے،
لہذا قیاس اس بات کا مقتضی ہے کہ نماز فاسد ہو جائے لیکن امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے اس صورت میں قیاس کو چھوڑ کر استحسان پر عمل کیا ہے ،استحسان کا تقاضا یہ ہے کہ نماز فاسد نہ ہو ،
وجہ اسکی یہ ہے کہ صورت مستفسرہ میں اسکی نماز من وجہ نماز فجر سے مشابہت رکھتی ہے اور من وجہ ظہر سے ،
فجر کی نماز سے مشابہت اس لئے رکھتی ہے کیونکہ فقہاء کرام نے اس نماز کے متعلق یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ
“” کل شفع من النفل علیحدۃ “” یعنی نفل کا ہر شفعہ یعنی ہر دو رکعت مستقل نماز ہے ،
لہذا اس نماز کا قعدۂ اولی فرض کی منزل میں ہوگا جسکا اعادہ کرنا تیسری رکعت کے سجدہ سے قبل فرض ہے ،
اور نماز ظہر سے مشابہت اس جہت سے ہے کہ فقہاء کرام نے یہ بھی رقم فرمایا ہے کہ”” التطوع شرع اربعا ایضا کما شرع رکعتین “” نفل نماز چار رکعت پڑھنا جائز و درست ہے جیسے کہ دو رکعت جائز و درست ہے
فقہاء کرام کے اس جزئیہ کے اعتبار سے نفل کی دو رکعت پر قعدہ فرض کی منزل میں نہ ہوگا ، کیونکہ اگر دو رکعت پر قعدہ فرض ہوتا تو اس قعدہ میں سلام پھیرے بغیر تیسری رکعت میں کھڑا ہونا جائز و درست نہ ہوتا اور نفل کی دو رکعت پر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہونے پر نماز کے فساد کا حکم لازم آتا حالانکہ کسی بھی فقیہ نے ایسا حکم نہیں دیا بلکہ ہر ایک فقیہ کے نزدیک جو نفل چار رکعت کی نیت سے پڑھے جائیں تو دو پر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہونے کا حکم ہے ،
لہذا اس تفصیل و توضیح سے معلوم ہوا کہ نفل کی دوسری رکعت کا قعدہ فرض نہیں ہے،
فقہاء کرام کے ایک جزئیہ سے قعدہ کا فرض ہونا اور دوسرے جزئیہ سے قعدہ کا وجوب ثابت ہوا ،
تو اب دونوں جزئیات پر عمل اس صورت میں ہوگا کہ اگر تیسری رکعت کے سجدہ سے قبل یاد آجائے تو قعدہ میں واپس آنا فرض ہے اگر قعدہ میں نہیں آیا تو ترک فرض کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی ،
اور اگر تیسری کا سجدہ کر لیا تو اب قعدہ میں واپس آنے کا حکم نہیں ہے بلکہ اب یہ قعدہ وجوب کی منزل میں ہوگا لہذا ترک واجب کی صورت میں سجدۂ سہو لازم آیا نماز کے آخر میں سجدۂ سہو کرے نماز ہو جائےگی
انما لم تکن القعدۃ علی رأس کل شفع فرضا کما ھو قول محمد وھو القیاس لأنها فرض للخروج من الصلوۃ فاذا قام الی الثالثة تبین ان ما قبلھا لم یکن او ان الخروج من الصلوۃ فلم تبق القعدۃ فریضة بخلاف القرأۃ فانھا رکن مقصود بنفسه فاذا ترکه تفسد صلوته
کیونکہ قعدہ نماز سے نکلنے کے لئے فرض ہے تو جب وہ تیسری رکعت میں کھڑا ہوگیا تو اس سے ظاہر ہوگیا کہ اس تیسری رکعت سے پہلے قعدہ میں نماز سے باہر نکلنے کا وقت نہیں تھا تو پھر شفع اول یعنی قعدۂ اولی فرض نہ رہا بر خلاف قرأت کے (وہ تو وتر و نوافل کی تمام رکعتوں میں فرض ہے) کیونکہ وہ نماز کا ایک رکن مقصود ہے تو جب (کسی رکعت میں ) قرات کو چھوڑ دیا تو نماز فاسد ہو جائے گی
مولانا محمد ایاز حسین تسلیمی
ساکن محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی یوپی انڈیا