سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مسلمان کو کافر کہنا کیسا ہے.
حسن رضا شاہجہاں پور
جواب
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
صورت مسولہ میں اگر وہ شخص واقعی کافر ہے جسے کافر کہا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ورنہ اُسکا یہ کلمہ اسی بولنے والے پر ہی لوٹ آئیگا۔
جیسا کہ حدیث شریف وارد ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِیهِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا
جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی سے کہے، اے کافر! تو ایک ان میں سے کافر ہوتا ہے۔
بخاري، الصحیح، کتاب الأدب، باب من أکفر أخاه بغیر تأویل فهو کما قال، 5: 2263، رقم: 5752، بیروت،
امام مسلم کی روایت میں درج ذیل الفاظ کا اضافہ ہے
إِنْ کَانَ کَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَیْهِ
اگر وہ شخص واقعی کافر ہو گیا تھا تو ٹھیک ہے ورنہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان حال إیمان من قال لأخیه المسلم یا کافر، 1: 79، رقم: 60، بیروت،
اور اسی کے تعلّق سے حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی فرماتے ہیں۔
کسی مسلمان کو کافرکہا تو تعزیر ہے رہا یہ کہ وہ قائل خود کافر ہو گا یا نہیں اس میں دو صورتیں ہیں اگر اوسے مسلمان جانتا ہے تو کافر نہ ہوا۔ اور اگر اوسے کافر اعتقاد کرتا ہے تو خود کافر ہے کہ مسلمان کو کافر جاننا دین اسلام کو کفر جاننا ہے اور دین اسلام کو کفر جاننا کفر ہے۔ ہاں اگر اوس شخص میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جس کی بنا پر تکفیر ہو سکےاور اوس نے اسے کافر کہا اور کافر جانا تو کافر نہ ہوگا۔
(درمختار، ردالمحتار)
یہ اس صورت میں ہے کہ وہ وجہ جس کی بنا پر اوس نے کافر کہا ظنی ہو یعنی تاویل ہو سکے تو وہ مسلمان ہی کہا جائیگا مگر جس نے اوسے کافر کہا وہ بھی کافر نہ ہوا۔ اور اگر اوس میں قطعی کفرپایا جاتا ہے جو کسی طرح تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا تو وہ مسلمان ہی نہیں اور بیشک وہ کافر ہے اور اس کو کافر کہنا مسلمان کو کافر کہنا نہیں بلکہ کافر کو کافر کہنا ہے بلکہ ایسے کو مسلمان جاننا یا اس کے کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد دانش رضا اویسی
محمدی لکیھم پوری کھیری