سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اگر کوئی شخص گھر پہ نماز پڑھتا ہو مسجد میں نہیں جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
السائل– محمد انور بہرائچ
جواب
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
صورت مسؤلہ میں اگر بغیر کسی عذر شرعی قابل قبول کے قصداً جماعت کا تارک ہے کہ جماعت کو چھوڑ کر انفرادی طور پر گھر پر ہی نماز پڑھتا ہے تو یہ تارک واجب ہے گنہگار مستحق عذاب ہے۔
جیسا کہ اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں۔
تارک جماعت وہ کہ بے کسی عذر شرعی قابل قبول کے قصداً جماعت میں حاضر نہ ہو تو مذہب صحیح معتمد پر اگر ایک بار بھی بالقصد ایسا کیا گنہگار ہوا تارک واجب ہوا مستحق عذاب ہوا۔ العیاذ باللہ۔
اور اگر عادی ہو کہ بارہا حاضر نہیں ہوتا ہے اگرچہ بارہا حاضر ہوتا ہو بلاشبہ فاسق و فاجر مردود الشہادۃ ہے۔
فان الصغیرۃ بعد الاصرار کبیرۃ
در محتار میں ہے
۔
(الجماعت سنۃ مؤکدۃ للرجال) قال الزاھدی ارادوا بالتاکید الوجوب (قیل واجبة و عليه العامة) اى عامة مشائخنا و به جزم فى التحفة و غيرها قال فى البحر و هو الراجح عند اهل المذهب(فتسن او تجب) ثمرته تظهر فى الإثم بتركها مرة أو
مختصراًاور رد المحتار میں ہے
قوله- قال فى البحر و قال فى النحر هوا عدل الأقوال و اقواها و لذا قال فى الأجناس لا تقبل شهادته إذا تركها استخفافاً و مجانة أو سهوا أو بتاويل ككون الامام من اهل الاهواء او لا يراعى مذهب المقتدى فتقبل
(فتاوى رضوي,قديم، ج ٣ ص ٣٤٦)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
مولانا محمد مبارک امجدی
محمدی لکیھم پوری کھیری