قرض سے زائد رقم لینا، دینا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مثلاً زید نے بکر کو 10000 روپیہ قرض دیے اور جب بکر نے زید کو پیسے واپس کئے تو 15000 دئے بکر کہہ رہا ہے میں آپ کو خوشی میں 5000 زیادہ دے رہا ہوں
اب آیا زید کو 5 ہزار زیادہ لینا کیسا
یہ صورت سود تو نہیں ہے کہ نہیں؟
 اگر یہ سود ہے تو 5 ہزار زید کو واپس کرنا ضروری ہے یا مدرسہ، جامعہ میں بھی خرچ کر سکتا ہے
 براہ کرم رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی 
 سائل محمد دانش جے پور انڈیا
 

جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب


 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ 
 صورت مسئولہ میں جب بکر اپنی خوشی سے 5000 روپے قرض خواہ کو اصل قرض کی رقم 10000 سے زائد دے رہا ہے تو شرعا وہ رقم زید کے لئے حلال و طیب ہے ، اب زید پندرہ ہزار 15000 کا کلی طور پر مالک ہے ، اب وہ جہاں چاہے ان پندرہ ہزار کو صرف کر سکتا ہے ، یہ سود نہیں ہے ،
سود اس وقت ہوتا جبکہ قرض دیتے وقت قرض دہندہ اصل رقم سے زائد رقم دینے کی شرط لگاتا 
حدیث شریف میں واضح طور پر اس کا ثبوت موجود ہے،

امام بخاری اپنی صحیح بخاری میں فرماتے ہیں 

عن جابر بن عبد الله قال أتیت النبی صلی الله علیه وسلم وھو فی المسجد قال مسعر أراہ قال ضحی صل رکعتین وکان لی علیه دین فقضانی وزادنی 
ترجمہ ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے ، حضرت مسعر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ راوی نے چاشت کا وقت بتایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو رکعت نماز ادا کرو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا کچھ قرض تھا تو وہ قرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا بلکہ اس سے بھی زائد دیا 

 (صحیح بخاری ج ١ کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ٤٤٣) 
 دوسری جگہ پر امام بخاری اپنی صحیح میں فرماتے ہیں
عن أبی ھریرۃ رضی الله عنه أن رجلا تقاضی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فأغلظ له فھم به أصحابه فقال دعوہ فإن لصاحب الحق مقالا واشتروا له بعیرا فأعطوہ إیاہ وقالوا لانجد إلا أفضل من سنه قال اشتروہ فأعطوہ إیاہ فأن خیرکم أحسنکم قضاء
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے قرض کا مطالبہ کیا اور اسنے آپ پر سخت کلامی کی تو صحابۂ کرام نے اسے سزا دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کہنے دو کیونکہ صاحب حق کے لئے کہنے کا حق ہوتا ہے اور اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو صحابہ کرام نے عرض کیا ہم اس کے اونٹ سے افضل ہی اونٹ پاتے ہیں (یعنی جو اونٹ اس نے آپکو قرض میں دیا تھا اس سے اچھا اونٹ مل رہا ہے ) تو آپ ﷺ نے فرمایا اسے خرید کر قرض خواہ کو دے دو کیونکہ تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو قرض ادا کرنے میں اچھے ہوں 

(صحیح بخاری کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا،٢٣٠٦/٢٩٠٩)
 (صحیح مسلم کتاب المساقاۃ باب من استسلف شئی حدیث نمبر ١٦٠١
 مذکورہ دونوں حدیثوں کی روشنی میں واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ صورت مسئولہ میں بکر کا 5000 روپے خوشی سے زائد دینا اور زید کا اسے لینا بلا شک و شبہ جائز و درست ، حلال و طیب ہے 
    واللہ ورسولہ اعلم بالصواب

محمد ایاز حسین تسلیمی

ساکن محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی یوپی انڈیا

 ٥/رجب المرجب ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

مصنوعی بال اور دانت لگوانا کیسا ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *