السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید فجر کی نماز تنہا پڑھ چکا پھر جماعت قائم ہوئی تو جماعت میں شریک ہونا کیسا ہے
بکر کہتا ہے کہ جماعت میں شریک ہونا واجب ہے
بکر کہتا ہے کہ جماعت میں شریک ہونا واجب ہے
کیا بکر کا کہنا درست ہے اگر نہیں تو بکر کے بارے میں کیا حکم شرع ہے
المستفتی محمد سہیل رضا قادری لکھیم پور کھیری
جواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
زید کو اب دوبارہ جماعت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے کیونکہ فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے۔
بہار شریعت میں ہے: فجر یا مغرب کی نماز ایک رکعت پڑھ چکا تھا کہ جماعت قائم ہوئی تو فوراً نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوجائے اگرچہ دوسری رکعت پڑھ رہا ہو، البتہ دوسری رکعت کا سجدہ کر لیا تو اب ان دو نمازوں میں توڑنے کی اجازت نہیں اور نماز پوری کرنے کے بعد بہ نیت نفل بھی ان میں شریک نہیں ہو سکتا کہ فجر کے بعد نفل جائز نہیں اور مغرب میں اس وجہ سے کہ تین رکعتیں نفل کی نہیں اور مغرب میں اگر شامل ہوگیا تو برا کیا، امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت اور ملا کر چار کرلے اور اگرامام کے ساتھ سلام پھیر دیا تو نماز فاسد ہوگئی چار رکعت قضا کرے۔
بہار شریعت ج:١ ح:٤ ص:٦٩٥/مجلس المدینۃ العلمیہ
بکر کا کہنا سراسر غلط ہے،شریعت مطہرہ پر افترا ہے قرآن مجید میں ہے کہ ایسے لوگ فلاح نہ پائیں گے ان کے لیے سخت عذاب ہے ۔اسے چاہئے کہ فورا توبہ کرے۔اور آئیندہ کبھی ایسا مسئلہ بتانے سے پرہیز کرے جو اسے معلوم نہ ہو۔
اس لئے کہ حدیث شریف میں ہے
من افتی بغیر علم لعنته ملائکة السماء والأرض
جو بغیر علم کے فتوٰی دے اس پر اسمان و زمین کے فرشتوں کی لعنت ہو
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
فقیر محمد اشفاق عطاری
خادم دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال
٣٠/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ