زمیں تانبے کی ہوگی آسماں فولاد کا ہوگا. یہ شعر پڑھنا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 زمین تانبے کی ہوگی آسماں فولاد کا ہوگا
محمد ﷺ تخت پر ہونگے عدالت پر خدا ہوگا۔
 اس شعر کا پڑھنا کیسا ہے ؟
 سائلہ :فردوس پروین کلکتہ 
 
جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
سوال میں مذکور شعر کا پڑھنا جائز و درست ہے اس شعر میں قیامت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بروز قیامت زمین چاندی کی اور آسمان سونے کا ہو جائے گا، اللہ تبارک و تعالیٰ بندوں کا حساب لیگا اور حضور علیہ السلام کو تخت شفاعت(مقام محمود ) پر فائز فرمائے گا فولاد والی کوئی روایت تو نہیں ملی لیکن فولاد کا ایک معنی ہے ” مضبوط ”اس معنیٰ کے اعتبار سے سونے کا پہاڑ مراد لیا جا سکتا ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے 



یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

(سورہ ابراھیم ٤٨) 
جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا اور آسمان اور لوگ سب نکل کھڑے ہوں گے ایک اللہ کے سامنے جو سب پر غالب ہے
 اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں خازن کے حوالہ سے ہے کہ ایک قول یہ ہے.
کہ آسمان و زمین کی ذات ہی بدل دی جائے گی، اس زمین کی جگہ ایک دوسری چاندی کی زمین ہوگی ،سفید و صاف ہوگی جس پر نہ کبھی خون بہایا گیا ہوگا نہ گناہ کیا گیا ہو گا اور آسمان سونے کا ہوگا۔

 (خازن،ابراہیم،تحت الآیۃ:۴۸،۳/۹۲)

 (تفسیر صراط الجنان تحت الآیۃ المذکورہ) 
 سورہ اسری میں ہے
 
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا

(۷۹) 
اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کرو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔ 
 اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے

آیت میں مقامِ محمود کا ذکر ہے اور مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہے کہ اس میں اوّلین و آخرین حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حمد کریں گے، 

جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی :مقامِ محمود کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ شفاعت ہے۔ 

(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل، ۵/۹۳،الحدیث:۳۱۴۸) 

(تفسیر صراط الجنان تحت الآیۃ المذکورہ) 
 سورہ نحل میں ہے
 

وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ لَتُسْــٴَـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ


(۹۳) 
اور اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت کرتا لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دیتا ہے جسے چاہے اور ضرور تم سے تمہارے کام پوچھے جائیں گے ۔ 
 اس آیت کریمہ کے تحت ہے
فرمایا گیا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب ایک ہی دین پر ہوتے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کی اپنی مَشِیَّت اور حکمت ہے جس کے مطابق وہ فیصلے فرماتا ہے تو وہ اپنے عدل سے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور اپنے فضل سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اس میں کسی دوسرے کو دخل کی ہمت ہے نہ اجازت، البتہ یہ یاد رہے کہ لوگ اس مشیت کو سامنے رکھ کر گناہوں پر جَری نہ ہوائیں کیونکہ قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا لہٰذا مشیت کا معاملہ جدا ہے اور حکمِ الٰہی کا جدا۔

 (تفسیر صراط الجنان تحت الآیۃ المذکورہ) 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور.محمدی لکھیم پور کھیری یوپی انڈیا 

 ٥/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

مصنوعی بال اور دانت لگوانا کیسا ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *