بہو سے نکاح کرنا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰه وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام
اس مسئلہ کے بارے میں کہ باپ اپنے بیٹے کے انتقال کے بعد اور کوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی نسل آگے چلانے کے لئے اپنے مرحوم بیٹے کی بیوی سے نکاح کرسکتا ہے؟ 
 جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا 
 سائل ۔۔کلام رضا نوری گوپال گنج
 

جواب

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب
 صورت مستفسرہ میں باپ اپنے مرحوم بیٹے کی بیوی سے شادی نہیں کر سکتا ہے کیونکہ بہو سے نکاح کرنا حرام قطعی ہے
 ارشاد باری تعالیٰ ہے
 

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ وَ رَبَآىٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ٘-فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ٘-وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ-وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ 

(سورۃ النساء الآیۃ ٢٣)

 ترجمۂ کنز الایمان 
 حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں ان بیویوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں میں حرج نہیں اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنیں اکٹھی کرنا مگر جو ہو گزرا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
(سورۃ النساء الآیۃ ٢٣)

 تفسیر صراط الجنان میں ہے
 

وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ.

(تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں) 
 اس سے معلوم ہوا کہ منہ بولے بیٹوں کی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے اور رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے کیونکہ وہ نسبی بیٹے کے حکم میں ہے اور پوتے پر پوتے بھی بیٹوں میں داخل ہیں 
 (تفسیر صراط الجنان تحت الآیۃ المذکورۃ)

 حضور فقیہ ملت مفتی محمد جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ سے یہی سوال ہوا تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایا 
 بہو کے ساتھ نکاح حرام قطعی ہے ہرگز ہرگز جائز نہیں پارۂ چہارم کی آخری آیت کریمہ میں ہے 
 
وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ 
یعنی تمہارے نسبی بیٹوں کی بیویاں تمھارے لئے حرام ہیں
 (فتاویٰ فیض الرسول ج ١ ص ٥٦٨)
 اسی طرح فتاویٰ رضویہ ج ١١ ص ٣٥٤ پر ہے
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


فقیر محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور ہور،محمدی لکھیم پور کھیری
١٩

/ربیع الثانی ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

لڑکا، لڑکی خود ایجاب وقبول کر لیں تو نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟

سوال   السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *