امام قعدہ اولی میں بغیر بیٹھے کھڑا ہو جائے تو کیا حکم ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
عصر کی فرض نماز کے قعدہ اولیٰ میں بغیر بیٹھے فوراً امام بھول کر کھڑا ہونے لگا تو مکبر نے فوراً لقمہ دیا اور امام سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے لوٹ آیا اور پھر نماز پوری کر کے سجدہ سہو کرلیا
 دریافت طلب امر یہ کہ اس صورت میں امام پر سجدہ سہو واجب تھا یا نہیں اگر واجب نہیں تھا تو سجدہ سہو کرنے پر نماز ہوئی یا نہیں؟ 
اور بہار شریعت کے اندر درج ذیل مسئلہ جماعت کے تعلق سے ہے یا منفرد کے تعلق سے 
 مسئلہ ۲۲: فرض میں قعدۂ اولیٰ بھول گیا توجب تک سیدھا کھڑا نہ ہوا، لوٹ آئے اور سجدۂ سہو نہیں اور اگر سیدھا کھڑا ہو گیا تو نہ لوٹے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے اور اگر سیدھا کھڑا ہو کر لوٹا تو سجدۂ سہو کرے اور صحیح مذہب میں نماز ہوجائے گی مگر گنہگار ہوا لہٰذا حکم ہے کہ اگر لوٹے تو فوراً کھڑا ہوجائے۔ (درمختار، غنیہ)
 بہار شریعت حصہ چہارم ص ٧١٥
 سائل علی حیدر بلوچستان پاکستان
 
جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 صورت مسئلہ میں اگر امام ابھی بیٹھنے ہی کے قریب تھا تو سجدہ سہو نہیں اور اگر کھڑے ہونے کے قریب تھا تو سجدہ سہو واجب. 
 فتاویٰ رضویہ میں ہے :جو شخص فرض یا وتر کا قعدہ اولٰی بھول کر کھڑا ہوجائے اگر سیدھا کھڑا نہیں ہوا تھا تو اسے قعدہ کی طرف لوٹ آنا چاہئے اب اگر بیٹھنے کے قریب تھا تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں اور اگر قیام کے قریب تھا تو سجدہ سہو لازم ہوگا 
 فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٨ ص ١٨٤/مطبوعہ مرکز اہلسنت برکات رضا 
 اگر بیٹھنے ہی کے قریب تھا مگر سجدہ سہو کر لیا تو اس صورت میں امام اور مقتدیان سابق کی نماز ہو گئی اور جو سجدہ سہو کے بعد شامل ہوئے ان کی نماز نہ ہوئی
فتاوی رضویہ شریف میں ہے:   امام و مقتدیانِ سابق کی نماز ہوگئی جو مقتدی اس سجدہ سہو میں جانے کے بعد ملے ان کی نماز نہیں ہوئی کہ جب واقع میں سہو نہ تھا دہنا سلام کہ امام نے پھیرا ختمِ نماز کا موجب ہوا یہ سجدہ بلا سبب لغو تھا تو اس سے تحریمہ نماز کی طرف عود نہ ہوا اور مقتدیان مابعد کو کسی جزء امام میں شرکت امام نہ ملی لہذا ان کی نماز نہ ہوئی ولہذا اگر سجدہ سہو میں مسبوق اتباع امام کے بعد کو معلوم ہو کہ یہ سجدہ بے سبب تھا اس کی نماز فاسد ہوجائے گی کہ ظاہر ہوا کہ محلِ انفراد میں اقتدا کیا تھا، ہاں اگر معلوم نہ ہوا تو اس کے لئے حکم فساد نہیں کہ وہ حال امام کو صلاح وصواب پر حمل کرنا ہی چاہیے ۔ 

در مختار میں ہے
 
سلام من علیه سجود سھو یخرجه من الصلٰوۃ خروجا موقوفا إن سجد عاد الیھا وإلا لا
اس کا سلام جس پر سجدہ سہو تھا نماز سے موقوف خروج ہے اگر سجدہ کر لیا تو وہ نماز کی طرف لوٹ آیا ورنہ نہیں۔
 ردالمحتار میں ہے
 
أنه إذا سجد وقع لغوا فکانه لم یسجد فلم یعد الی حرمة الصلٰوۃ 
جب اس نے سجدہ کیا تو یہ لغو ہوگا گویا اس نے سجدہ سہو کیا ہی نہیں، لہذا وہ حرمت نماز کی طرف نہیں لوٹا۔

 خزانة المفتین میں فتاوٰی قاضی خاں سے ہے
 
إذا ظن الإمام أن علیه سہوا فسجد للسہو و تابعه المسبوق فی ذلک ثم علم أن صلوته تفسد و إن لم یعلم انه لم یکن علی الإمام سھو لم تفسد صلٰوۃ المسبوق

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:ھوالمختار کذا فی المحیط۔ 
 فتاوی رضویہ شریف ج ۸ ص ۱۸۵ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور 
 جواب سوال دوم :امام و منفرد دونوں کے لئے یہی حکم ہے قعدہ اولیٰ میں اگر بھول کر ابھی مکمل کھڑا نہیں ہوا تھا کہ کوئی مقتدی لقمہ دے یا تو بیٹھ جائے سجدہ سہو نہیں اور اگر مکمل یا کھڑے ہونے کے زیادہ قریب تھا تو سجدہ سہو واجب۔کھڑا ہو کر بیٹھنے کی صورت میں حکم ہے کہ فورا کھڑا ہوجائے۔
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 



فقیر محمد اشفاق عطاری


متعلم :جامعۃ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج نیپال
 ٢٢/رجب المرجب ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

امام مقتدیوں سے اونچائی پر ہو تو کیا حکم ہے؟

سوال   السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *