وہابی کی امامت و نماز قبول ہے کہ نہیں /نیز اس کے آگے سے گزرنا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃاللہ تعالی و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دیوبندی کی امامت قبول ہے یا نہیں ؟ 
 اور جماعت میں اس کی شرکت سے اس کی اور سنیوں کی نماز قبول ہے یا نہیں 
؟
اور جب وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے آگے گزرنے والے پر وہی وعیدے ہوں گی جو نمازیوں کے آگے سے گزرنے پر وارد ہیں یا نہیں؟ 
سائل محمد عیان رضا پورنپور پیلی بھیت 
 
جواب

الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 ویابیہ، دیابنہ اپنے عقائد ضلالیہ، کفریہ کی بناء پر بمطابق حسام الحرمین کافر و مرتد خارج از اسلام ہیں نہ تو ان کی نماز قبول اور نہ ہی امامت کیوں کہ امامت و نماز کے لئے اسلام شرط ہے اور یہاں شرط مفقود ہے.اور مشہور قاعدہ ہے اذا فات الشرط فات المشروط. فلہذا ان کی امامت و نماز باطل

جب ان کی نماز نماز ہی نہیں.تو جماعت میں ان کا ہونا نہ ہونے کے حکم میں ہے. گویا اتنی جگہ خالی رہے گی جس سے قطع صف لازم آئے گا اور قطع صف حرام ہے جس سے نماز میں کراہت آئے گی.البتہ سنیوں کی نماز ہو جائے گی لیکن ان پر لازم ہے کہ وہابیہ، دیابنہ کو مسجد میں آنے سے روکیں اگر قدرت کے باوجود نہیں روکیں گے تو گنہگار ہوں گے 

فتاویٰ رضویہ مترجم:ج ٧/ص:١٥٠/مرکز اہلسنت برکات رضا/ملخصا
اور اس کے آگے سے گزرنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن جہاں سنی عوام بھی ہوں وہاں سامنے سے گزرنے میں گریز کرنا چاہیے کہ وہ عدم علم کی بناء پر بدظن ہوں گے
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 



محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور محمدی لکھیم پور کھیری یوپی

 ٢٤/شعبان المعظم ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *