شوہر پاکستان میں اور بیوی ہندوستان میں ہو تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید پاکستان میں اور ہندہ ہندوستان میں رہتے ہیں اب سے ٹھیک بارہ سال پہلے ان دونوں کی شادی ہوئی تھی چار سال تک آمدورفت رہی۔ ان میں بھی آپسی رشتوں میں تعلقات ٹھیک نہیں رہے اب آٹھ سال سے ہندہ اپنے گھر ہندوستان میں رہتی ہے والدین ہندہ کی شادی کے لئے رشتے کے متلاشی رہے ۔ اب رشتہ ملا ۔تو زید سے رابطہ کیا زید نے ہندہ، والدہ اور بھائی کے سامنے کہا کہ میں تم کو ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی سے آزاد کرتا ہوں۔اور اب تم اپنی دوسری کہیں بھی شادی کر سکتی ہو۔ میری طرف سے تم آزاد ہو 
 دریافت طلب امر یہ ہندہ دوسری شادی کر سکتی ہے یا نہیں شرعا کیا حکم ہے؟

جواب سے مطلع فرمائیں

 سائل حافظ الحاج اخلاق احمد،پیلی کوٹھی

بھوریخاں پیلی بھیت،یوپی،انڈیا 

 
جواب

الجواب بعون الملک الوھاب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

صورت

 مسئولہ میں اگر شوہر نے اپنے الفاظ سے طلاق کی نیت کی ہے یا حالت اس پر دال ہے تو ہندہ پر ایک طلاق بائنہ پڑ گئی اور نکاح ختم ہوگیا کیوں کہ یہ تینوں کنائی الفاظ ہیں اور کنائی الفاظ سے (سوا تین الفاظ کے) طلاق بائن واقع ہوتی ہے
 جیسا کہ فتح القدیر میں ہے
 
منھا ثلاثة الفاظ یقع بھا الطلاق الرجعی ولا یقع بھا الا واحدة وھی قوله اعتدی، وستبرئی رحمک، ونت واحدة

(فتح القدیر جلد ٤ صفحہ ٥٥ )
 البحر الرائق میں ہے لاتطلق بھا إلا بنیة او بدلالة حال 

البحر الرائق جلد ٣ صفحہ ٥١٩ 
شوہر نے تینوں الفاظ میں سے جو بھی پہلے بولا تو بیوی بولتے ہی بائنہ یعنی نکاح سے خارج ہوگئی باقی کے دو الفاظ بے موقع ہوگئے کیونکہ جب ایسے الفاظ کنایہ کے ساتھ طلاق دی جائے جن سے فوری نکاح ختم ہو جاتا ہے اور تجدید نکاح کے بغیر رجوع ممکن نہیں ہوتا تو ایسی صورت حال کے بعد صریح یا کنائی الفاظ کے ساتھ دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ پہلی طلاق کنایہ سے نکاح ختم ہوگیا اور بعد میں دی ہوئی طلاق فضولی ہوئی
 جیساکہ در مختار میں ہے
   إذا طلقها تطليقة بائنة ثم قال لها في عدتها أنت عليّ حرام أو خلية أو برية أو بائن أو بتة أو شبه ذالک وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شیٔ
جب خاوند نے بیوی کو ایک بائن طلاق دی پھر اسے عدت کے اندر کہا تُو میرے اوپر حرام ہے یا آزاد ہے یا بری ہے یا جدا ہے یا الگ ہے یا ان سے ملتے جلتے کلمات اور ان سے مراد طلاق لیتا ہے تو بیوی کو کوئی طلاق نہیں ہوگی

 فتاویٰ عالمگیری میں ہے
 

ولو قال تزوجی ونوی الطلاق اوالثلاث صح ان لم ینو شئا لم یقع

اگر شوہر نے کہا تو نکاح کرلے لے اور طلاق کی نیت کی تو ایک طلاق اور تین کی نیت کی تو تین ہوں گی اور کوئی نیت نہیں کی تو کوئی طلاق نہیں ہوگی

 (فتاویٰ عالمگیری جلد ١ صفحہ ٣٨٥) 

 فتاویٰ عالمگیری میں دوسری جگہ ہے 
 ولو قال اعتقتک طلقت بالنیة کذا فی معراج الدرایة وکونی حرۃ اعتقی مثل انت حرۃ کذا فی بحر الرائق

اگر شوہر نے کہا میں نے تجھے آزاد کیا تونیت سے طلاق ہوگی جیسا کہ معراج الدرایہ میں ہے یا تو آزاد ہوجا یا تو آزاد ہے انت حرۃ کی طرح 


 (فتاویٰ عالمگیری جلد ١ صفحہ ٤١٢) 
 لہذا صورت مسئولہ میں ہندہ پر طلاق بائن واقع ہوگئی اب  دوسرا نکاح کر سکتی ہے 
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد حسنین مصباحی غفر لہ

 من أبناء الازھر الشریف: امرتا پور لکھیم پور کھیری یوپی انڈیا
 ٣/محرم الحرام ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

شوہر بیوی کے پاس بھی نہ جاتا ہو اور طلاق بھی نہ دیتا ہو تو کیا حکم ہے؟

h سوال السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ  کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *