سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ خنثی جانور کی قربانی درست نہیں ہے، یوں ہی اس کا گوشت کھانا کیسا ہے؟
حوالے کے ساتھ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی (مولانا) صنور مصباحی، کٹیہار، بہار
جواب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
خنثٰی جانور کی قربانی درست نہیں ہے، کیوں کہ اس کا گوشت پکتا نہیں ہے۔ البتہ یوں ہی اگر اس کا گوشت کھانا چاہیں تو ذبح شرعی کے بعد کھا سکتے ہیں کہ خنثی جانور بھی حلال و ماکول اللحم جانوروں میں سے ہے۔
لہذا جس طرح دیگر ماکول اللحم جانوروں کا گوشت بعد ذبح حلال و طیب ہو جاتا ہے اور اس کا کھانا جائز ہے، اسی طرح خنثی جانور کا گوشت بھی بعد ذبح حلال ہو جاتا ہے اور اس کا بھی کھانا جائز و درست ہے۔
فقیہ فقید المثال سیدنا امام احمد رضا خان قدس سرہ سے اسی طرح کا سوال ہوا کہ خنثٰی جانور کا ذبیحہ جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:خنثٰی کہ نر ومادہ دونوں کی علامتیں رکھتا ہو، دونوں سے یکساں پیشاب آتا ہو، کوئی وجہ ترجیح نہ رکھتا ہو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں کہ اس کا گوشت کسی طرح پکائے نہیں پکتا، ویسے ذبح سے حلال ہو جائے گا، اگر کوئی کچا گوشت کھائے،( یعنی اس کا گوشت پکتا تو نہیں لیکن اگر کوئی ویسا ہی گوشت کھانا چاہے تو کھا سکتا ہے)
درمختارمیں ہے
ولا بالخنثی لان لحمها لاینضج، شرح وہبانیة
خنثٰی بکرے کی قربانی جائزنہیں کیوں کہ اس کا گوشت پکتا نہیں، شرح وہبانیہ
(درمختار کتاب لاضیحہ، مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۳۳)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے
لاتجوز التضحیۃ بالشاۃ الخنثٰی لان لحمہا لاینضج، کذا فی القنیۃ
خنثٰی بکرے کی قربانی جائزنہیں کیوں کہ اس کا گوشت پکتا نہیں، قنیہ میں اسی طرح ہے
فتاوٰی ہندیہ کتاب الاضحیۃ الباب الخامس نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۲۹۹“
فتاویٰ رضویہ جدید، کتاب الذبائح، ج: ۲۰، ص: ۲۵۵،۲۵۶، رضا فاؤنڈیشن لاہور۔ فتاویٰ رضویہ قدیم غیر مترجم، کتاب الذبائح، ج: ۸، ص: ۳۳۴، ۳۳۵، رضا اکیڈمی ممبئی
فتاویٰ رضویہ جدید، کتاب الذبائح، ج: ۲۰، ص: ۲۵۵،۲۵۶، رضا فاؤنڈیشن لاہور۔ فتاویٰ رضویہ قدیم غیر مترجم، کتاب الذبائح، ج: ۸، ص: ۳۳۴، ۳۳۵، رضا اکیڈمی ممبئی
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد شفاء المصطفي المصباحي
المتدرب علی الافتاء بالجامعۃ الاشرفیہ
٤/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ