بچے کے کان میں عورت اذان دے سکتی ہے یا نہیں؟ نیز موبائل سے اذان دینا درست ہے یا نہیں؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بچہ کے کان میں بعد پیدائش موبائل سے اذان دینا کیسا ہے ؟ 
اگر کوئی اذان دینے والا نہ ہو تو بچہ کے کان میں عورت اذان دے سکتی ہے کہ نہیں ؟
 اور اگر کوئی اذان دینے والا مرد ہو اس کے باوجود بچہ کے کان میں عورت اذان دے سکتی ہے یا نہیں ؟ 
 سائل محمد مظھر بہرائچ شریف یوپی 

جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 نو مولود کے کان میں اذان دینا مسنون و مستحب ہے
اور موباٸل فون سے بچے کے کان میں اذن دینا کافی نہیں ہے. اور اس سے سنت ادا نہیں ہوگی، اس لیے کہ اذان جملہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے اور عبادت ادا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی مکلف ہو ، اور ظاہر ہے کہ یہاں کوئی مکلف نہیں ہے
 فتاوی شامی میں ہے 


و ذكر فی البدائع أيضاً : أن أذان الصبی الذي لايعقل لايجزی و يعاد ؛ لأن ما يصدر لا عن عقل لا يعتد به ، كصوت الطيور .أن المقصود الأصلی من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاة ثم صار من شعار الإسلام في كل بلدة أو ناحية من البلاد الواسعة على ما مر، فمن حيث الإعلام بدخول الوقت وقبول قوله لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالة اھ

(فتاوی شامی ج ١ ص٣٩٤)  
عورت کی اذان مکروہ ہے اور دے دے تو اعادہ مستحب

جیسا کہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ
عورتوں کو اذان و اقامت کہنا مکروہ تحریمی ہے


 (بہار شریعت ج ١ ح ٣ ص٣٠) 
 علامہ اکمل الدین بابرتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
 

قولہ : کذالک المراة تؤذن ؛ عطف علی قولہ : والجنب أحب أن یعید ، لیقع ای الاذان علی وجہ السنة فإن أذان المرأة لایکون علی وجہ السنة بل علی وجہ البدعة ، لأنها أن رفعت صوتها فی أعلی موضع ارتکبت بدعة والا لم تؤذن علی وجه السنة وترك وجه ھذہ السنة بدعة ، ولیس علی النساء أذان ولا اقامة


(العنایۃ ص ١٣٧)
 لیکن اگر عورت بچے کے کان میں اذان دے دے تو ہو جائے گی لوٹانا لازم نہیں مگر منع ہے 
 حاشیہ ہدایہ میں ہے
 
لان اذان النساء لم یکن فی المتقدمین فکان من جملة المحدثات- المرأة منهیة عن رفع الصوت لأن فی صوتها فتنة ولذا جعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم التسبیح للرجال والتصفیق للنساء وکذالك منهیة عن تشہیر النفس بأن یکون فی بیتها وراء الحجاب 

(حاشیہ ھدایۃ ج١ ص ٢٨٤) 
 اوراگر اذان دینے والا کوئی مرد نہ ہو تو کوئی حرج نہیں

علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ فرماتےہیں

 
فان قلت : اذالم یوجد رجال ؟ قلت : الضرورات مستثناة فی الشرع

(عمدةالقاری ج٨ ص١١١، دارالفکر) 
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد عمران خان قادری غفر لہ

نہروسہ پیلی بھیت 

 ١٧/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

قبل اذان واقامت درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟

سوال السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *