الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
اور موباٸل فون سے بچے کے کان میں اذن دینا کافی نہیں ہے. اور اس سے سنت ادا نہیں ہوگی، اس لیے کہ اذان جملہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے اور عبادت ادا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی مکلف ہو ، اور ظاہر ہے کہ یہاں کوئی مکلف نہیں ہے
و ذكر فی البدائع أيضاً : أن أذان الصبی الذي لايعقل لايجزی و يعاد ؛ لأن ما يصدر لا عن عقل لا يعتد به ، كصوت الطيور .أن المقصود الأصلی من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاة ثم صار من شعار الإسلام في كل بلدة أو ناحية من البلاد الواسعة على ما مر، فمن حيث الإعلام بدخول الوقت وقبول قوله لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالة اھ
جیسا کہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ
عورتوں کو اذان و اقامت کہنا مکروہ تحریمی ہے
قولہ : کذالک المراة تؤذن ؛ عطف علی قولہ : والجنب أحب أن یعید ، لیقع ای الاذان علی وجہ السنة فإن أذان المرأة لایکون علی وجہ السنة بل علی وجہ البدعة ، لأنها أن رفعت صوتها فی أعلی موضع ارتکبت بدعة والا لم تؤذن علی وجه السنة وترك وجه ھذہ السنة بدعة ، ولیس علی النساء أذان ولا اقامة
لان اذان النساء لم یکن فی المتقدمین فکان من جملة المحدثات- المرأة منهیة عن رفع الصوت لأن فی صوتها فتنة ولذا جعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم التسبیح للرجال والتصفیق للنساء وکذالك منهیة عن تشہیر النفس بأن یکون فی بیتها وراء الحجاب
علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
فان قلت : اذالم یوجد رجال ؟ قلت : الضرورات مستثناة فی الشرع
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد عمران خان قادری غفر لہ
نہروسہ پیلی بھیت