سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد سلام علماء کرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ قبرستان میں قبر پر مٹی دینے کے بعد جو اذان دی جاتی ہے یہ اذان دینا نا کیسا ہے جائز ہے یا نہیں
بحوالہ جواب عنایت فرمائیں آپ کی بہت مہربانی ہوگی
المستفتی محمد شیردین قادری متھرا یوپی
جواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
قبر پر اذان دینا جائز ہی نہیں بلکہ بہتر ہے اور بہت سارے علمائے کرام نے اسے سنت بھی کہا ہے اس لئے کہ اس سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے، شیطان دفع ہوتا ہے اور سوالات قبر کے جوابات میں آسانی ہوتی ہے اس لئے ہر مسلمان کی قبر پر اذان کہنی چاہئے۔
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حق یہ ہے کہ اذان مذکور فی السوال کا جواز یقینی ہے ہرگز شرع مطہر سے اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں اور جس امر سے شرع منع نہ فرمائے اصلاً ممنوع نہیں ہوسکتا قائلانِ جواز کے لئے اسی قدر کافی، جو مدعیِ ممانعت ہو دلائل شرعیہ سے اپنا دعوٰی ثابت کرے۔
وارد ہے کہ جب بندہ قبر میں رکھا جاتا اور سوالِ نکیرین ہوتا ہے شیطان رجیم وہاں بھی خلل انداز ہوتا ہے اور جواب میں بہکاتا ہے والعیاذ بوجہ العزیز الکریم ولاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔
وارد ہے کہ جب بندہ قبر میں رکھا جاتا اور سوالِ نکیرین ہوتا ہے شیطان رجیم وہاں بھی خلل انداز ہوتا ہے اور جواب میں بہکاتا ہے والعیاذ بوجہ العزیز الکریم ولاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔
امام ترمذی محمد بن علی نوادر الاصول میں امام اجل سفیٰن ثوری رحمہ اللہ تعالٰی سے روایت کرتے ہیں
إذا سئل المیت من ربك ترا أي له الشیطان فی صورت فیشیر الی نفسه أي أنا ربك فلھذا ورد سوال التثبیت له حین یسئل
اور امام ترمذی فرماتے ہیں
ویؤیدہ من الأخبار قول النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عند دفن المیت اللھم اجرہ من الشیطان فلو لم یکن للشیطان ھناك سبیل ما دعا صلی اللّٰه تعالٰی علیه وسلم بذلك
امام احمد وطبرانی وبیہقی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی
قال لما دفن سعد بن معاذ (زاد فی روایة) وسوی علیه سبح النبی صلی اللّه تعالٰی علیه وسلم وسبح الناس معه طویلا ثم کبر وکبر الناس ثم قالوا یارسول اللّه لم سبحت (زاد فی روایة) ثم کبرت قال لقد تضایق علی ھذا الرجل الصالح قبرہ حتی فرج اللّه تعالٰی عنه۔
علامہ طیبی شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں
أي ما زالت أکبر و تکبرون واسبح وتسبحون حتی فرجه اللّه
یعنی حدیث کے معنی یہ ہیں کہ برابر میں اور تم اللہ اکبر اللہ اکبر سبحان اللہ کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے اُس تنگی سے انہیں نجات بخشی۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے میت پر آسانی کے لئے بعد دفن کے قبر پر اللہ اکبر اللہ اکبر بار بار فرمایا ہے اور یہی کلمہ مبارکہ اذان میں چھ بار ہے تو عین سنّت ہُوا، غایت یہ کہ اذان میں اس کے ساتھ اور کلمات طیبات زائد ہیں سو اُن کی زیادت نہ معاذ اللہ کچھ مضر نہ اس امر مسنون کے منافی بلکہ زیادہ مفید ومؤید مقصود ہے کہ رحمتِ الٰہی اتارنے کے لئے ذکر خدا کرنا تھا، دیکھو یہ بعینہٖ وہ مسلک نفیس ہے جو دربارہ تلبیہ اجلہ صحابہ عظام مثل حضرت امیر المومنین عمر وحضرت عبداللہ بن عمر وحضرت عبداللہ بن مسعود وحضرت امام حسن مجتبٰی وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کو ملحوظ ہوا اور ہمارے ائمہ کرام نے اختیار فرمایا،
ہدایہ میں ہے
لا ینبغی أن یخل بشیئ من ھذہ الکلمات لانه ھو المنقول فلا ینقص عنه، ولو زاد فیھا جاز لأن المقصود الثناء وإظهار العبودیة فلا یمنع من الزیادۃ علیه اھ ملخصا
فتاوی رضویہ شریف ج۵ ص ۶۵۳ تا ۶۵۵ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
فقیر محمد اشفاق عطاری
متعلم :جامعۃ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج نیپال
٢٢/رجب المرجب ١٤٤٢ھ