بدمذہبوں سے بیع و شرا کرنا کیسا؟



سوال





کیا فرماتے ہیں علماے کرام اس مسئلہ میں کہ بد مذہب کے ساتھ بیع و شرا درست ہے یا نہیں؟ 


 سائل: محمد رفیع رضوی، بہرائچ شریف



جواب

بد مذہب زمانہ جیسے وہابی،دیوبندی اور قادیانی وغیرہم یہ سب اپنے عقائد کفریہ کی وجہ سے کافر و مرتد اور خارج از اسلام ہیں اور مرتد سے کسی قسم کا معاملہ شرعاً منع ہے۔ ہاں! اگر ضرورت اور حالت مجبوری ہو تو بغیر تعلقات و مودت کے اس کی اجازت ہے۔ کیوں کہ بد مذہبوں سے عدم تعلق اور دوری و نفوری کا حکم ہے۔ 

 حدیث پاک میں ہے
 إياكم و إياهم لا يضلونكم و لا يفتنونكم

ترجمہ:
ان سے یعنی بد مذہبوں سے دور رہو اور ان کو اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کردیں۔ 
( صحیح مسلم، باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ) 
 سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ فرماتے ہیں:
 ” معاملہ ہر کافر سے ہر وقت جائز ہے مگر مرتدین سے۔” 
( فتاویٰ رضویہ غیر مترجم ج: 6، ص: 110، رضا اکیڈمی ممبئی۔) 
 امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں: 
 ” مہما امکن در ہیچ امر بایشاں رجوع نہ باید و اگر فرضا بضرورت افتد در رنگ قضا و حاجت انسانی بکراہت و اضطراب قضاء حاجت بایشاں باید نمود۔

یعنی جہاں تک ممکن ہو ان کی طرف کسی معاملہ میں رجوع نہ کریں اور ضرورت و مجبوری کی حالت میں قضاے حاجت کی طرح بکراہت ان سے ضرورت پوری کی جائے۔ 
 (مکتوبات مجدد الف ثانی جلد اول، ص: 169، بحوالۂ فتاویٰ مشاہدی، ص: 361۔)
 مفتی طیب دانا پوری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
 ” علماے اہل سنت بھی فتویٰ دیتے ہیں کہ مرتدین و مبتدعین کے ساتھ جہاں تک ہو سکے دنیوی تعلقات بھی نہ رکھو۔ لیکن اگر ایسا کرنے کی تمھیں ضرورت و مجبوری ہے تو تم اس کے بارے میں گنہ گار نہیں۔ البتہ ان دنیوی تعلقات کی بنا پر مرتدین و مبتدعین سے موانست و مودت ہرگز جائز نہیں۔” 
 ( تجانب اھل السنۃ، ص: 389، بحوالۂ فتاویٰ مشاہدی، ص: 362۔)
 اور حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ بد مذہب، روافض، وہابی، قادیانی، چکڑالوی، تبلیغی اور جملہ بد مذہب سے کوئی چیز رہن رکھ کر منافع لینا کیسا ہے؟ الخ
اس کے جواب میں آپ نے فرمایا:
     ” کفار کی دو قسمیں ہیں۔ مرتد اور غیر مرتد۔ آخر تک جتنے نام آپ نے لکھے ہیں عام طور پر مرتد ہیں، ان سے کسی قسم کا معاملہ شرعاً منع ہے۔” 
 (فتاویٰ بحر العلوم ج: 4، ص: 210، کتاب السیر)
 نیز ایسا ہی فتاویٰ مشاہدی، ص: 361، 362 پر ہے۔
 


واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد شفاء المصطفى المصباحي


المتدرب على الإفتاء بالجامعة الأشرفيه
 ٢١/ صفر المظفر ١٤٤٢ھ 

About حسنین مصباحی

One comment

  1. ماشاء اللہ
    بہت خوب مفتی صاحب قبلہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *