اذان ہونے کے بعد مسجد سے نکلنا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اذان ہونے کے بعد مسجد سے نکلنا جائز ہے یا نہیں زید کا قول ہے کہ مسجد سے نکلنا جائز ہے تو کیا زید کا قول درست ہے
 مدلل و مفصل قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
 سائل محمد انور خان رضوی علیمی پتہ شراوستی یوپی
 
جواب

الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب 
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کی تفصیل میں اصل یہ ہیکہ اگر وقت نماز ہوگیا اور ابھی نماز ادا نہیں کی اور بے سبب و بے ضرورت مسجد سے چلا گیا اور نماز و جماعت میں واپس آنے کا بھی ارادہ نہیں رکھتا تو ایسا جانا مکروہ تحریمی و گناہ کبیرہ اور منافق کی علامت ہے، اور ضرورتاً مثلاً دوسری مسجد میں اذان یا نماز کی ذمہ داری ہے یا اور کسی حاجت شدیدہ کے سبب جانا ہو تو چلا جائے اسمیں حرج نہیں، مگر ہر گز نماز ترک نہ کرے کہ یہ سخت ترین کبیرہ گناہ ہے
حدیث پاک میں ہے 

عن امیر المؤمنین عثمٰن رضی الله تعالٰی عنه قال قال رسول الله صلی اللّٰہ علیه وسلم من ادرکه الاذان فی المسجد ثم خرج، لم یخرج لحاجة وھو لا یرید الرجعة فھو منافق
امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان کو مسجد میں پایا پھر وہاں سے نکل گیا حالانکہ اسے نکلنے کی کوئی حاجت بھی نہ تھی اور واپسی کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ منافق ہے
سنن ابن ماجہ باب الاذان وَاَنْتَ فِی الْمَسْجِدِ فَلاتخرج مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  

در مختار میں ہے 

کرہ تحریما للنھی خروج من لم یصل من مسجد اذن فیه جری علی الغالب والمراد دخول الوقت اذن فیه اولا
مکروہ تحریمی ہے ممانعت کے سبب نکلنا اس شخص کا جس نے نماز نہ پڑھی ہو اس مسجد سے جس میں اذان ہوگئی ہو، شارح نے کہا ماتن اکثر پرچلا ہے (یعنی اکثر یہی ہوتاہے کہ اذان کا وقت ہونے پر اذان ہوجاتی ہے) اور مراد اذان ہونے سے وقت نماز کا آجانا ہے خواہ مسجد میں اذان ہوئی ہو یا نہ 

درمختار، باب ادراك الفریضہ،مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی، ج ١ ص٩٩  
بحر الرائق باب ادراک الفریضہ، جلد دوم میں ہے: الظاھر من الخروج من غیرصلاۃ عدم الصلوٰۃ مع الجماعة، الخ نماز کے بغیر نکلنے سے ظاہرًا مراد یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادانہ کی ہو، الخ

بحوالہ فتاویٰ رضویہ جدید ج 7. ص 79/ 80، مکتبہ روح
 المدینہ اکیڈمی
 نیز” بہار شریعت جدید حصہ سوم المکتبۃ المدینہ۔ 656 میں ہے: اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کی اجازت نہیں، حدیث میں فرمایا: کہ ’’اذان کے بعد مسجد سے نہیں نکلتا، مگر منافق۔‘‘ لیکن وہ شخص کہ کسی کام کے لیے گیا اور واپسی کا ارادہ رکھتا ہے یعنی قبل قیام جماعت۔ یوہیں جو شخص دوسری مسجد کی جماعت کا منتظم ہو تو اسے چلا جانا چاہیے 
بحوالہ ’’ مراسیل أبي داود ‘‘ مع ’’ سنن أبي داود ‘‘ ، باب ماجاء في الاذان، ص ۶ ’’ غنیۃ المتملي ‘‘ ، أحکام المسجد، ص ۶۱۳) 
 اسی میں آگے ص 702 پر ہے: اذان سے مراد وقت نماز ہوجانا ہے، خواہ ابھی اذان ہوئی ہو یا نہیں

حاصل یہ کہ جب وقت نماز ہو جائے تو بنا ضرورت بے ادائیگی نماز مسجد سے نہیں جانا چاہئے اور ضرورت ہو تو اذان کیا اگر یہاں “تکبیر” اقامت بھی ہورہی ہو تو جانے میں حرج نہیں۔

جیساکہ بہار شریعت مرجع سابق، ص 702 ہی میں بحوالہ. درمختار، ردالمحتار
ہے: جو شخص کسی دوسری مسجد کی جماعت کا منتظم ہو، مثلاً امام یا مؤذن ہو کہ اُس کے ہونے سے لوگ ہوتے ہیں ورنہ متفرق ہو جاتے ہیں ایسے شخص کو اجازت ہے کہ یہاں سے اپنی مسجد کو چلا جائے اگرچہ یہاں اقامت بھی شروع ہوگئی ہو مگر جس مسجد کا منتظم ہے اگر وہاں جماعت ہو چکی تو اب یہاں سے جانے کی اجازت نہیں بحوالہ. درمختار، ردالمحتار 


واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 



خاک پائے علماء ابو فرحان مشتاق احمد رضوی


جامعہ رضویہ فیض القرآن سلیم پور نزد کلیرشریف اتراکہنڈ
 ٢٦/صفر المظفر ١٤٤٣ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

ڈی جے بجا کر کمایا ہوا پیسہ مسجد میں لگانا کیسا ہے؟

سوال السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *