سوال
کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلے میں کہ
ایک عورت (شادی شدہ) کو زنا سے حمل ہے، لیکن مدت حمل ابھی چار مہینہ نہیں ہوئی ہے، کیا وہ اسقاط حمل کر سکتی ہے؟
بینوا وتؤجروا
جواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
عورت کو اگر زنا سے حمل ٹھہر گیا اور مدتِ حمل ابھی چار ماہ نہیں ہوئی ہے، تو ایسی صورت میں حمل ساقط کروانا جائز بلکہ بطورِ پردہ پوشی یہی بہتر ہے۔ اور اگر حمل کو چار مہینے ہوگئے تو اب ہرگز اجازت نہیں کہ چار مہینے میں بچے میں جان پڑ جاتی ہے۔تو اب حمل ساقط کروانا گویا بچے کو قتل کرنا ہے اور قتلِ نفس حرام ہے
در مختار میں ہے
و قالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر
اس کے تحت شامی میں ہے
(قوله: و قالوا الخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم، يباح ما لم يتخلق منه شيء و لن يكون ذلك إلا بعد مائة و عشرين يوما، و هذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح، و إلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح
در مختار مع رد المحتار، كتاب النكاح، باب نكاح الرقيق، مطلب: في حكم إسقاط الحمل، ج:٤، ص: ٣٣٥، ٣٣٦، دار عالم الكتب رياض
فقیہ فقید المثال امام احمد رضا خان قدس سرہ فرماتے ہیں: عورت کسی طرح معاذ ﷲ حرام میں مبتلا ہوئی اور اُسے حمل رہا اُس نے اس کی پردہ پوشی کے لیے اسقاط حمل کروایا جب کہ بچہ میں جان نہ پڑی تھی تو اس پر الزام نہیں بلکہ پردہ پوشی امرحسن ہے
فتاوی رضویہ مترجم، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج:۶، ص:۵۱۲، رضا فاؤنڈیشن لاہور
ایک مقام پر خاص اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں امام اہل سنت قدس سرہ فرماتے ہیں: ”اگر ابھی بچہ نہیں بنا (تو حمل ساقط کروانا) جائز ہے ورنہ ناجائز کہ بے گناہ کا قتل ہے اور چار مہینے میں بچہ بن جاتاہے
(فتاوی رضویہ مترجم، ج: ۲۴، ص: ۲۰۲، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
نیز اسی میں ایک دوسرے مقام پر ہے: ”جان پڑ جانے کے بعد اسقاط حمل حرام ہے، اور ایسا کرنے والا گویا قاتل ہے، اور جان پڑنے سے پہلے اگرکوئی ضرورت ہے تو حرج نہیں
فتاوی رضویہ مترجم، ج: ۲۴، ص: ۲۰۸، رضا فاؤنڈیشن لاہور
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب