پہننے والے زیورات پر زکوٰۃ ہے یا نہیں، اگر ہے تو کب اور کتنی دیں؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورتیں جو سونا چاندی پہنتی ہیں اس کی زکوۃ دینی پڑے گی یا نہیں اگر دینی پڑے گی تو کتنی دیں اور کب دیں تفصیل کے ساتھ اور حوالہ کے ساتھ جواب دیں بڑی مہربانی ہوگی
 المستفتی محمد غلام احمد رضا مغربی بنگال ضلع مالدہ
 
جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 عورتوں کے سونے چاندی کے زیورات پہننے کے ہوں یا برتنے یا رکھنے کے اگر وہ بقدر نصاب ہیں یعنی سونا ساڑھے سات تولہ ہو اور چاندی ساڑھے باون تولہ اور اگر دونوں ہیں لیکن کوٸی بقدر نصاب نہیں تو اب اگر دونوں ملکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچ رہے ہیں تو زکاة واجب ہے
 بہار شریعت میں ہے: ” سونے کی نصاب بیس ۲۰ مثقال ہے یعنی ساڑھے سات تولے اور چاندی کی دو سو ۲۰۰ درم یعنی ساڑھے باون تولے یعنی وہ تولہ جس سے یہ رائج روپیہ سوا گیارہ ماشے ہے۔ سونے چاندی کی زکاۃ میں وزن کا اعتبار ہے قیمت کا لحاظ نہیں ، مثلاً سات تولے سونے یا کم کا زیور یا برتن بنا ہو کہ اس کی کاریگری کی وجہ سے دو سو ۲۰۰ درم سے زائد قیمت ہو جائے یا سونا گراں ہو کہ ساڑھے سات تولے سے کم کی قیمت دو سو درم سے بڑھ جائے، جیسے آج کل کہ ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت چاندی کی کئی نصابیں ہوں گی، غرض یہ کہ وزن میں بقدر نصاب نہ ہو تو زکاۃ واجب نہیں قیمت جو کچھ بھی ہو۔ یوہیں سونے کی زکاۃ میں سونے اور چاندی کی زکاۃ میں چاندی کی کوئی چیز دی تو اس کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا، بلکہ وزن کا ا گرچہ اس میں بہت کچھ صنعت ہو جس کی وجہ سے قیمت بڑھ گئی یا فرض کرو دس آنے بھری چاندی بک رہی ہے اور زکاۃ میں ایک روپیہ دیا جو سولہ آنے کا قرار دیا جاتا ہے تو زکاۃ ادا کرنے میں وہ یہی سمجھا جائے گا کہ سوا گیارہ ماشے چاندی دی، یہ چھ آنے بلکہ کچھ اُوپر جو اس کی قیمت میں زائد ہیں لغو ہیں ۔”
یہ جو کہا گیا کہ ادائے زکاۃ میں قیمت کا اعتبار نہیں ، یہ اسی صورت میں ہے کہ اُس کی جنس کی زکاۃ اُسی جنس سے ادا کی جائے اور اگر سونے کی زکاۃ چاندی سے یا چاندی کی سونے سے ادا کی تو قیمت کا اعتبار ہوگا، مثلاً سونے کی زکاۃ میں چاندی کی کوئی چیز دی جس کی قیمت ایک اشرفی ہے تو ایک اشرفی دینا قرار پائے گا، اگرچہ وزن میں اس کی چاندی پندرہ روپے بھر بھی نہ ہو۔ 
 بہار شریعت ج ۱ ح۵ ص ۹۰۲ تا ۹۰۳ مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی دعوت اسلامی
 زکوٰۃ کو ہر سال میں ادا کرنا لازم ہے اگر تاخیر کرتا ہے تو گنہگار ہوگا جبکہ مالک نصاب ہو۔مثلا اگر کوئی شخص ایک محرم الحرام کو 12 بجے مالک نصاب ہوا تو آنے والے ایک محرم الحرام کو 12 بجے کے بعد اس کو ادا کرنا لازم ہے۔ یعنی بارہ بجے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کے برابر رقم حاصل ہوئی یا مال تجارت حاصل ہوا تو سال گزرنے کے بعد ایک محرم الحرام کو 12بجے اگر وہ نصاب کا بدستور مالک ہوا تواس مال کی زکوٰۃ کی ادائیگی اُس پر فرض ہوگی ۔ اگر اب بلا عذر شرعی ادائیگی میں تاخیر کرے گا توگناہ گار ہوگا ۔ 

فقیر محمد اشفاق عطاری

متعلم:جامعۃ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج نیپال
 ٢٠/رجب المرجب ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

کرائے پر چلانے کے لئے گاڑی خریدی تو زکوٰۃ گاڑی پر ہوگی یا آمدنی پر؟

سوال السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسئلہ کے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *