اللہ عزوجل کورام” یا ”بھگوان” کہنا کیسا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ اللہ عزوجل کو “بھگوان” یا “رام” کہنا کیسا ہے؟

اگر کوئی مسلمان اللہ تعالی کے لیے ان دونوں لفظوں کا استعمال کرے تو ایسے شخص پر شریعت کا کیا حکم ہے؟ 

 براے کرم جواب عنایت فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں

جواب 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب
سنسکرت میں ”بھگ“ عورت کی شرم گاہ کو کہتے ہیں اور ”وان“ کا معنی ”والا “ ہے۔ اور ”رام“ کے معنی رما ہوا یعنی کسی میں گھسا ہوا ہے۔ ظاہر ہے یہ دونوں معنی نہایت قبیح اور اللہ عزوجل کے لیے عیب ہیں اور اس بات کو مستلزم ہیں کہ وہ خدا نہ ہو، اس لیے ان دونوں الفاظ کا اطلاق اللہ عزوجل پر کفر ہے۔
  اب اگر کوئی مسلمان ”رام“ اور ”بھگوان“ کے معنی جانتے ہوئے، اللہ عزّوجلّ کو ”رام “ یا ”بھگوان“ کہتا ہے تو وہ کافر و مرتد ہے، اس کے تمام نیک اعمال برباد ہوگئے، اس پر فرض ہے کہ اس کفر سے توبہ کرے، پھر سے کلمہ پڑھے، اگر شادی شدہ تھا،  تو پھر سے نکاح کرے۔
ہاں  جو ان کے معنی نہ جانتا ہو، صرف اتنا جانتا ہو کہ ہندؤوں میں خدا کو ”رام“ یا ”بھگوان“ کہا جاتا ہے، اسی وجہ سے اس نے اللہ عزوجل کو ”رام“ یا ”بھگوان“ کہہ دیا، تو اس شخص پر حکمِ کفر تو نہ ہوگا ، البتہ یہ قول کفر ضرور ہے، جس سے توبہ اور تجدیدِ ایمان کرنا لازم ہے، اور اگر شادی شدہ ہے، تو تجدید نکاح کرنابھی لازم ہے ۔
:خدا کو ”رام“ یا ”بھگوان“ کہنے کا تفصیلی حکم بیان کرتے ہوئے، حضور شارحِ بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی قدس سرہ رقم طراز ہیں
 بھگوان اور رام کے جو حقیقی معنی ہیں، ان پر مطلع ہوتے ہوئے جو شخص اللہ عزوجل کو ” بھگوان یا رام“کہے، وہ بلاشبہ کافر، مرتد ہے، اس کے تمام اعمال حسنہ اکارت ہوگئے، اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی۔
اس پر فرض ہے کہ اس سے توبہ کرے، پھر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو اور اپنی بیوی رکھنا چاہتا ہو، تو پھر سے تجدیدِ نکاح کرے ۔
سنسکرت میں ”بھگ“ عورت کی شرم گاہ کو کہتے ہیں اور ”وان“ معنی ”والا “۔رام کے معنی رما ہوا یعنی کسی میں گھسا ہواہے۔ یہ دونوں معنی اللہ عزوجل کے لیے عیب ہیں اور اس کو مستلزم ہیں کہ وہ خدا نہ ہو اس لیے دونوں الفاظ کا اطلاق اللہ عزوجل پر کفر ہے۔
رہ گئے  وہ لوگ جو اس کے حقیقی معنی نہیں جانتے، وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہندؤوں میں اللہ عزوجل کو بھگوان یا رام کہا جاتا ہے۔
انہوں نے اگر اللہ عزوجل کو ”بھگوان یا رام“ کہا، تو ان کا حکم اتنا سخت نہیں، پھر بھی ان پر توبہ و تجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔
[فتاویٰ شارح بخاری، کتاب العقائد، ج:1، ص: 171، 172، دائرۃ البرکات گھوسی]

اللہ رب العزت کو ”رام“ کہنے کےمتعلق صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
خدا کو ”رام“کہنا ہندؤوں کا مذہب ہے، وہ چوں کہ اسے ہر شی میں رما ہوا یعنی حلول کیے ہوئے  جانتے ہیں، اس وجہ سے اسے رام کہتے ہیں اور یہ عقیدہ کفر ہے اور اسے  ”رام“ کہنا بھی کلمۂ کفر ہے۔
[فتاوی امجدیہ، کتاب السیر، ج: 4، ص:418، مطبوعہ مکتبہ  رضویہ]
اسی طرح خدا کو ”رام“ کہنے کے متعلق حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان قدس سرہ رقم طراز ہیں
مشرکین کا مذہب نا مہذب ہے کہ خدا ہر چیز میں رما ہوا، سرایت و حلول کیے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ رمنے اور حلول کرنے سے پاک ہے۔ مشرک خدا کو اپنے اسی عقیدۂ خبیثہ کی بنا پر”رام“ کہتے ہیں۔ تو خدا کو  ”رام“کہنا کفر ہوا۔
[فتاوی مصطفویہ، ص: 600،مطبوعہ شبیر برادرز لاہور]
: نیز خدا کو ”رام“ کہنے کے متعلق جلالۃ العلم حضور حافظِ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی قدس سرہ لکھتے ہیں
رحیم کا معنی رحم و کرم فرمانے والا، رام کا معنی رمنے والا اور کسی چیز میں سمانے والا۔ خداوند قدوس رحیم ہے رام ہرگز نہیں۔
خدا کا رام ہونا محال ہے۔
یہ ہندوؤں کا عقیدہ ہے۔وہ خدا کو ہر شی میں اسی طرح سمایا ہوا مانتے ہیں، جیسے کپڑے میں رنگ اور پھول میں خوشبو، اسی لیے اس کو رام کہتے ہیں۔ یہ حلول ہے اور یہ خدا کے لیے محال ہے۔یہ عقیدہ کفر والحاد ہے۔“
[ فتاوی جامعہ اشرفیہ،کتاب العقائد، ج:1، ص:4، مجلسِ فقہی جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔]
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 
کتبہ: محمد شفاء المصطفی المصباحی  

اللہ عزوجل کورام” یا ”بھگوان” کہنا کیسا ہے؟

Allah Ko Ram Ya Bhagwan Kehna Kaisa?

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *