مال زکات سے مدرسے کی تعمیر ہو سکتی ہے یا نہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ مال زکوٰۃ سے مدرسے کی تعمیر ہو سکتی ہے یا نہیں؟ 

مدلل جواب عطا فرمائیں، مہربانی ہوگی۔
 سائل: مولانا محمد ثناء اللہ مصباحی، مدھوبنی بہار
 

جواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

 الجواب
 مال زکات کو براہِ راست مدرسے کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ زکات کی ادائیگی کے لیے” تملیک” شرط ہے اور اس صورت میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ اس لیے براہِ راست یعنی ڈائریکٹ زکات کی رقم سے مدرسے کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ 
 ہاں! اگر حیلہ شرعی کر لیا جائے تو اب مال زکات سے مدرسے کی تعمیر ہو سکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مال زکات کا کسی فقیر کو مالک بنادیں اس طرح کہ زکات کی پوری رقم اس کے ہاتھ میں رکھ دیں اور وہ اس پر مالکانہ قبضہ کرلے،پھر وہ اپنی طرف سے مدرسے کی تعمیر کے لیے دے تو یہ صورت جواز کی ہوگی اور اس صورت میں زکات دینے والے اور فقیر ان دونوں کو ثواب ملے گا۔
 “در مختار مع تنویر الابصار” میں ہے
 ويشترط أن يكون الصرف تمليكا لا اباحة كما مر لا يصرف إلى بناء نحو مسجد الخ
(نحو مسجد) 
کے تحت”رد المحتار” المعروف بہ فتاویٰ شامی میں ہے: 

 قوله: (نحو مسجد) كبناء القناطر و السقايات و إصلاح الطرقات و كري الأنهار و الحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه. زيلعي.” 

( تنوير مع الدر و رد، ج: ٣، ص: ٢٩١، کتاب الزکوة، باب المصرف، دار عالم الكتب، رياض.)
 “در مختار” میں ہے 
 
و حيلة التكفين بها التصدق على الفقير ثم هو يكفن فيكون الثواب لهما و كذا في تعمير المسجد.” (أيضاً ص: ١٩١.) 
اسی میں ایک اور مقام پر ہے 
 

و قدمنا أن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يامره بفعل هذه الأشياء.” 


( أيضاً باب المصرف، ص: ٢٩٣)
فتاویٰ ہندیہ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے
 

و لا يجوز أن يبنى بالزكوة المسجد، و كذا القناطر و السقايات و إصلاح الطرقات و كري الأنهار و الحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه


( ج: ١، ص: ١٨٨، كتاب الزكوة، الباب السابع في المصارف، دار الفكر، طبع ثاني.)
 اسی “عالمگیری” میں ہے
 
جميع ابواب البر التي لا يقع بها التمليك كعمارة المساجد و بناء القناطر و الرباطات لا يجوز صرف الزكاة إلى هذه الوجوه.
والحيلة أن يتصدق بمقدار زكوته على فقير ثم يامره بذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة و لذلك الفقير ثواب بناء المسجد و القنطرة.”

(كتاب الحيل، الفصل الثالث في مسائل الزكاة،ص: ٣٩٢، دار الفكر.)
مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے 
 
( ولا تدفع) الزكاة (لبناء المسجد) لأن التمليك شرط فيها و لم يوجد و كذا بناء القناطر و إصلاح الطرقات و كري الأنهار و الحج و الجهاد و كل ما لا يتملك فيه، و إن أريد الصرف إلى هذه الوجوه صرف إلى فقير ثم يامره بالصرف إليها فيثاب المزكي و الفقير.” 

( كتاب الزكاة، باب في أحكام المصرف، ص: ٢٢٢، دار إحياء التراث العربي.)
 اُردو زبان میں فقہ حنفی کی معتبر و مستند کتاب “بہار شریعت” میں “شامی” کے حوالے سے ہے:
  ” زکاۃ کا روپیہ مُردہ کی تجہیز و تکفین یا مسجد کی تعمیر میں  نہیں  صرف کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں  پائی گئی اور ان امور میں  صرف کر نا چاہیں  تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کر دیں  اور وہ صرف کرے اور ثواب دونوں  کو ہوگا بلکہ حدیث میں  آیا، ’’اگر سو ہاتھوں  میں  صدقہ گزرا تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا دینے والے کے لیے اور اس کے اجر میں  کچھ  کمی نہ ہوگی۔
 (رد المحتار)

 (ج:١، حصہ:٥، ص:٨٩٠، زکوٰۃ کا بیان، مطبوعہ المدینۃ العلمیہ )
        
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد شفاء المصطفى المصباحي

المتدرب على الإفتاء بالجامعة الأشرفيه.


 ١/ جمادى الاولى ١٤٤٢ھ.

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *