قعدۂ اولی میں لقمہ دینے کا حکم؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

 اگر نماز مغرب میں امام دوسری رکعت پر بیٹھ جائے اور مقتدی لقمہ دئے بغیر اپنی تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور نماز کو پورا کرے تو اسکی نماز کا کیا حکم ہے ؟

یا مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے نہ لیا یا امام تک آواز ہی نہ پہونچ پائی اور امام نے دوسری رکعت ہی پر سلام پھیر دیا ادھر لقمہ دینے والا بعد لقمہ تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوگیا اور اپنی نماز پوری کی تب اس مقتدی کی نماز کا کیا حکم ہے ؟

  مدلل جواب عنایت فرمائیں
 سائل :محمد شادان اشرف رامپور 
 

جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 صورت مستفسرہ کا جواب سمجھنے کے لئے تمہیدی طور پر چند صورتیں بیان کی جاتی ہیں تاکہ اصل جواب سمجھنے میں آسانی ہو 
پہلی صورت اگر امام دوسری رکعت پر بیٹھ گیا اور مقتدی نے خود سے تیسری ادا کی اور نماز مکمل کی تو ایسی صورت میں اس مقتدی کی نماز نہیں ہوگی،
وجہ یہ ہے کہ اس مقتدی کا اپنے امام کے ساتھ قعدہ کرنا فرض ہے اور اس مقتدی نے امام کے ساتھ آخری رکعت ادا نہیں کی لہذا فرض کو ترک کیا اور نماز میں فرض کا ترک مفسد نماز ہے ،
فقہاء کرام نے فرمایا ہے انما جعل الإمام لیوتم به إلى
کہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اسکی پیروی کی جائے 
 دوسری صورت فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ لقمہ اس مقام پر دیا جاتا ہے جہاں پر غلطی کا تحقق ہو جائے اور مزید یہ کہ بعض مقامات ایسے ہیں جہاں لقمہ دینا سجدۂ سہو کے وجوب سے قبل درست ہے وجوب کے بعد درست نہیں کیونکہ لقمہ اس وجوب کو ساقط نہیں کر سکتا)
یہ کہ اگر امام صاحب نے مغرب کی دوسری رکعت میں قعدہ کیا اور بیٹھنے کے بعد کافی تاخیر کردی یعنی تشہد وغیرہ پڑھ لیا
تو اب اس صورت میں امام کے سلام سے قبل مقتدی کے لئے امام کو لقمہ دینا جائز ودرست نہیں ہے اگر لقمہ دیا (اگر چہ امام صاحب نے اس لقمہ کو نہ لیا ہو یا امام تک اس لقمہ کی آواز نہ پہنچی ہو ) تو لقمہ دینے والے کی لقمہ دیتے ہی نمازفاسد اور اگر امام نے لیا تو سب کی فاسد ،
کیوں کہ اس صورت میں مقتدی کا لقمہ دینا دو حال سے خالی نہ ہوگا
پہلی حالت یہ کہ اس مقتدی کا یہ گمان کہ شاید امام تشہد سے فراغت کے بعد درود دعا پڑھ رہا ہے اور تیسری رکعت بھول گیا ہے اور امام دوسری رکعت کو ہی تیسری سمجھ رہا ہے
اگر مقتدی کا یہ خیال و گمان امام کے متعلق صحیح بھی ہو تو بھی اس مقتدی کو لقمہ دینا جائز ودرست نہیں ہے کیونکہ لقمہ وہاں دیا جاتا ہے جہاں امام کا غلطی پر ہونا متحقق ہو ، شک و شبہ والی جگہوں پر لقمہ دینا روا نہیں،
تو اس صورت میں اگر لقمہ دیگا تو اسکی لقمہ دیتے ہی فاسد اگر امام لقمہ لیگا تو امام کی بھی فاسد ہوگی جب امام کی فاسد تو سب کی فاسد،
کیونکہ اس کا لقمہ دینا بے حاجت و ضرورت و لغو ہے اور اصلاح نماز سے اس لقمہ کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ جب امام دوسری رکعت میں اللھم صل علی محمد پڑھ چکا تو سجدۂ سہو واجب ہو چکا اور اب اس لقمہ سے سجدہ ساقط نہیں ہوسکتا لہذا لقمہ دینا جائز ودرست نہیں ہے البتہ جب امام دوسری رکعت میں سلام پھیرنے لگے تو امام کا غلطی پر ہونا متحقق ہوگا لہذا اب لقمہ دینا درست ہوگا،

دوسری حالت یہ ہے کہ اس مقتدی کا گمان امام کے متعلق غلط ہوگا ابھی امام تشہد ہی پڑھتا ہوگا لیکن وہ امام تشہد کو ترتیل و تجوید اور مخارج کے ساتھ آہستہ آہستہ پڑھتا ہوگا اور یہ مقتدی سمجھا کہ امام صاحب تشہد سے آگے پڑھ رہے ہیں لہذا اب بھی لقمہ بے محل دینے کی وجہ سے نماز فاسد اگر امام لقمہ لیگا تو امام کے ساتھ سب کی فاسد،

بعینہ اسی مسئلہ کو امام اہلسنت اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے لکھا ہے نے تحریر فرمایا ہے 

 فتاوی رضویہ جلد 7 صفحہ 264 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور
 تیسری صورت
یہ کہ اس مقتدی نے امام کو قعدہ اولی یعنی دوسری رکعت میں مذکورہ طریقہ پر لقمہ دیا ہے لہذا اس کی نماز فاسد ہوگئی اسکا تیسری رکعت تنہا ادا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


مولانا محمد ایاز حسین تسلیمی

ساکن محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی یوپی انڈیا

 ٧/ذو الحجة الحرام ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

نماز میں سورت ملانا بھول جائے تو کیا حکم ہے؟

سوال السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ   اگر امام عشاء کے فرض کی دوسری رکعت …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *