شیخ کامل کی بیعت توڑنا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درجہ ذیل مسئلہ میں
کہ ہندہ ایک پیر کامل سے بیعت ہوئی جس کی عمر 18 یا 20 سال ہے ایک دن زید کو معلوم ہوا تو اس نے کہا ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہوئی مرید ہونے کی تو اب ہندہ بیعت توڑنا چاہتی تو اگر ہندہ بیعت توڑ دے تو اس پر اور زید پر حکم شرع کیا ہے معتبر کتب کے حوالہ سے رہنمائی فرمائیں
 المستفتی حافظ محمد انور بہرائچ شریف یو:پی
 

جواب

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 الجواب بعون الملک الوھاب 
 بلا وجہ شرعی کامل شیخ کی بیعت توڑنا سخت محرومی اور ناجائز ہے کیونکہ بیعت میں انسان شیخ کے ہاتھ پر ترک معصیت اور اعمال صالحہ کرنے کا وعدہ کرتا اور وعدہ خلافی جائز نہیں ہے،
 زید کا قول ” ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہوئی”باطل اور جہالت پر مبنی ہے. کیونکہ بیعت ہونے کی کوئی خاص عمر متعین نہیں ہے اگر بچہ عقلمند، نابالغ ہو تب بھی بیعت کر سکتا ہے اٹھارہ بیس سال کی لڑکی تو بہرحال بیعت ہو سکتی ہے
لہٰذا ہندہ کو بیعت توڑنے کی اجازت نہیں ہے لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق گناہ کے کاموں میں کسی کی اطاعت ضروری نہیں ہے.
اگر توڑ دی تو ہندہ اور زید دونوں گنہگار ہوں گے
 ارشاد باری تعالیٰ ہے
 

ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ


 (النحل :۹۱)

ترجمۂ کنزالایمان: اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بیشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے۔ 
 اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ
 یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے بیعتِ رضوان کے موقع پر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کی تھی، انہیں اپنے عہد پورے کرنے کا حکم دیا گیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جسے انسان اپنے اختیار سے اپنے اوپر لازم کر لے اور اس میں وعدہ بھی داخل ہے کیونکہ وعدہ عہد کی قسم ہے۔

(خازن، النحل،

 تحت الآیۃ : ۹۱، ۳ / ۱۴۰ 

 حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتےہیں’’وعدہ عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تم جس شخص سے بھی عہد کرو تواسے پورا کرو،خواہ وہ شخص مسلمان ہو یا کافر ،کیونکہ تم نے اس عہد پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لیا(اور اسے ضامن بنایا) ہے. 
 ( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۷ / ۲۶۳ ) 

 حضرت علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عہد سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے پورا کرنا انسان پر لازم ہے خواہ اسے پورا کرنا اللّٰہ تعالیٰ نے بندے پر لازم کیا ہو یا بندے نے خود اسے پورا کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہو جیسے پیرانِ عظام کے اپنے مریدین سے لئے ہوئے عہد کیونکہ ان میں مریدین اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور کسی کام میں اللّٰہ تعالیٰ کی مخالفت نہ کرنے کو اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں. لہٰذا مریدین پر اسے پورا کرنا لازم ہے۔ 

 (صاوی، النحل، تحت الآیۃ ۹۱،۳ /۱۰۸۸-۱۰۸۹ )

 (تفسیر صراط الجنان تحت الآیۃ المذکورۃ)
 حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔ مسلمان سے وَعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاذ، شیخ، نبی، اللّٰہ تعالٰی سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں۔
 (مراٰۃ المناجیح،ج ٦ ص ٤٨٣/٤٩٢) 
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


فقیر محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور،محمدی لکھیم پور کھیری

 ١ /جمادی الاولیٰ ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

” جاؤ میں نے تمہیں طلاق دے دی” اس جملے سے کون سی طلاق واقع ہوگی

سوال السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *