سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے گھر کی کھدائی ہو رہی تھی کھدائی کے درمیان سونا چاندی ہیرے جواہر نکلے
دریافت طلب امریہ ہے کہ ان چیزوں کا مالک زید ہے یا حکومت اگر زید ہے تو ان تمام چیزوں پر زکوۃ ہے یا نہیں
سائل :مکی رضا پتہ کشنگنج بہار
جواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
صورت مستفسرہ میں اگر مال پر اسلامی نشانی ہو جیسے کہ کلمۂ شہادت یا مسلمان بادشاہ کا نام وغیرہ تو اس کا حکم لقطہ کا ہے کہ اس کی تشہیر کرے جب غالب گمان ہو جائے کہ مالک نہیں ملے گا تو چاہے تو اس کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر صدقہ کر دے اگر خود مسکین ہو تو خود بھی استعمال کر سکتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں اگر مالک مل جائے اور وہ مطالبہ کرے تو ضمان دینا ہوگا
اگر اس پر کفر کی علامت ہو جیسے بت کی تصویر یا کافر بادشاہ کا نام وغیرہ یا اسلام وکفر کی کوئی علامت نہ ہو تو اس میں سے خمس یعنی پانچواں حصہ لیا جائے گا باقی کا مالک زید ہے اور خمس کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں. حکومت کا شرعا اس میں کوئی دخل نہیں ہے
در مختار مع تنویر الابصار میں ہے
وما علیه سمة الإسلام من الکنوز” نقدا أو غیره ” فلقطة” سیجيء حکمھا وما علیه سمة الکفر خمس وباقیه للمالك
کتاب الزکوة،باب الرکاز ص ١٣٥ ط:دار الکتب العلمیہ بیروت
رد المحتار میں ہے
قوله”سمة الإسلام” والمراد بھا العلامة وذالك ککتابة کلمة الشھادة أو نقش اٰخر معروف للمسلمین. قوله ”نقدا أو غیره” أی من السلاح والآلات واثاث المنازل والفصوص والقماش. بحر. قوله ”فلقطة” لأن مال المسلمین لا یغنم. بدائع. قوله ” سیجيء حکمھا” وھو أنه ینادی علیھا في أبواب المساجد والأسواق الی أن یظن عدم الطلب ثم یصرفھا الی نفسه إن فقیرا وإلا الی فقیر آخر بشرط الضمان. قوله ” سمة الکفر” کنقش صنم أو اسم ملك من ملوکھم المعروفين. بحر. قوله ”خمس” أی سواء کان في أرضه أو أرض غیره أو مباحة. کفایة
کتاب الزکوة ،باب الرکاز ج ٣ ص ٢٦٠ /٢٦١ ط:دار عالم الکتب ریاض
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب