جیون بیمہ (لائف انشورنس)کروانا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زندگی کا بیمہ(لائف انشورنس) کرانا کیسا ہے؟
  المستفتی محمد حامد رضا
بہرائچ۔اتر پردیش۔انڈیا 

جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
 ہندوستان میں لائف انشورنس یعنی زندگی بیمہ کرانا جائز ہے مگر ہر شخص کو اجازت نہیں صرف اسی کو اجازت ہے جس کو اپنی موجودہ مالی حالت کے ساتھ تین سال کی مقررہ یا اسکے بعد کی مدت موسعہ تک تین سال کی تمام قسطیں جمع کرنے کا ظن غالب ملحق بالیقین ہو اور جس شخص کی موجودہ مالی حالت مدت موسعہ تک تین سال کی پالیسی قائم رکھنے کے قابل نہیں اس کا ظن ملحق بالیقین نہیں تو ایسے  شخص کو بیمہ پالیسی کی اجازت نہیں 

 (صحیحہ فقہ اسلامی ص۳۲) 
 حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان قدس سرہ فتاوی بحر العلوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ
جیون بیمہ اپنی اصل کے اعتبار سے قمار ہے اس میں نقصان اور نفع دونوں کا ہی خطرہ ہے اس لئے شرع مطہرہ نے اس کو حرام قرار دیا ۔ 
 لیکن اعلی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے” فتاوی رضویہ ج ٧ ص ١١٣” میں تحریر فرمایا کہ اگر جیون بیمہ کمپنیوں کے سب مالکان غیر مسلم ہوں اور اس میں بیمہ کرانے والے کو کسی قسم کی غیر شرعی پابندی لازم نہ ہو اور مسلمان کا اس میں فائدہ ہی فائدہ ہو تو یہاں ہندوستان میں اس کی اجازت ہے” اھ

 (فتاوی بحر العلوم ج ٤ص ٩٦) 
 لہٰذا زندگی بیمہ سے حاصل شدہ رقم حلال ہے اسے اپنے دینی ودنیوی تمام کاموں میں صرف کرنا بھی جائز ہے
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


فقیر محمد عمران خان قادری غفر لہ

نہروسہ پیلی بھیت خطیب و امام رضا جامع مسجد سمپورنا نگر کھیری یوپی الہند 

 ١٧/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *