جو قشقہ لگائے اس کا پیسہ مسجد میں لگ سکتا ہے یا نہیں؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو شخص ہندوؤں کے مذہبی میلوں میں شرکت کرتا ہو اور بخوشی قشقہ بھی لگواتا ہو.اس کے بارے میں حکم شرع کیا ہے.کیا اس کا پیسہ مسجد میں لگ سکتا ہے؟ 
جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی 
المستفتی :محمد سہیل رضا لکھیم پور کھیری
 
جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
 ہندوؤں کے مذہبی میلوں میں شرکت کرنا سخت حرام و گناہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے.
قشقہ (تلک) لگانا کفر ہے کیونکہ یہ مشرکین کا مذہبی شعار ہے.جس کے ماتھے پر قشقہ لگا ہوتا ہے لوگ اسے یقینی طور پر ہندو سمجھتے ہیں. اب بخوشی قشقہ لگانا لگوانا یہ رضا بالکفر ہے اور رضا بالکفر بھی کفر ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے

” أنکم إذا مثلھم” 
اب جب کہ تم ان کے کام پر راضی ہو تو تم بھی کافر ہو
 اسی طرح فتاویٰ شارح بخاری ج ٢ باب الفاظ الکفر ص ٥٩٣/مطبوعہ دائرۃ البرکات گھوسی /میں ہے
 ابو حنیفۂ ہند اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :وہ جنہوں نے برہمن سے قشقہ کھنچوایا وہ جنہوں نے ہنود کے ساتھ وہ جے بولی کافر ہوگئے ،ان کی عورتیں ان کے نکاح سے نکل گئیں 
 فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٤/ص٣١٨/مرکز اہلسنت برکات رضا
 لہذا ایسا شخص کافر و مرتد ہے اور مرتد کا پیسہ مسجد میں نہیں لگ سکتا کیونکہ مرتد سے بلا ضرورت شرعیہ کوئی معاملہ جائز نہیں 
 فقیہ فقید المثال اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :معاملہ ہر کافر سے ہر وقت جائز ہے مگر مرتدین سے۔” 
 فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٤/ص ٥٩٧/مرکز اہلسنت برکات رضا 
 حضور بحر العلوم مفتی محمد عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کافر کی دو قسمیں ہیں ١ مرتد ٢ غیر مرتد اور مرتد سے کسی قسم کا معاملہ شرعا منع ہے 

 فتاویٰ بحر العلوم ج ٤ ص ٢١٠ 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور، محمدی لکھیم پور کھیری یوپی انڈیا 

 ٢٣/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

گورنمنٹ کے پیسے سے مسجد بنانا کیسا ہے؟

سوال السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  علماء کرام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *