تین طلاق کا حکم اور حلالہ کا طریقہ کیا ہے؟

سوال

السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسٔلہ ذیل میں کہ
زید نے غصے کی حالت میں ہندہ کو تین طلاق دیا اور بعد میں اپنے محلے کی مسجد کے امام سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تین طلاق نہیں ہوئی اور دونوں میاں بیوی ساتھ رہنے لگے ٦ / سال کا عرصہ ہوا اس درمیان ایک بچی پیدا ہوئی اور دوسرے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے
فی الحال ایک مولانا صاحب سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا طلاق واقع ہو گئی تم لوگ حرام کام ‌کر رہے ہو دونوں میاں بیوی الگ ہو جاؤ
اب اگر میاں بیوی ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو از روئے شرع کیا صورت ہوگی اور امام صاحب نے جو غلط مسئلہ بتایا ان پرکیا حکم نافذ ہوگا
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں کرم ہوگا
 سائل۔ خان شبراقبال رضوی
خضر پور کولکاتا    
 جواب
وعلیکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ
 الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب 
صورت مستفسرہ میں زید کی بیوی ہندہ پر طلاق مغلظہ واقع ہو گئی دونوں پر لازم ہے کہ فورا الگ ہو جائیں اور فعل حرام سے صدق دل سے استغفار کریں
 ارشاد باری تعالیٰ ہے
 
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ 
اب ہندہ بغیر حلالہ زید کے لئے حلال نہیں ہو سکتی 
ارشاد باری تعالیٰ ہے
 
فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره
حلالہ کی صورت یہ ہے کہ ہندہ کسی دوسرے سنی صحیح العقیدہ شخص سے نکاح کرے پھر وہ شوہر ثانی کم سے کم ایک بار ہمبستری کرے پھر انتقال کر جائے یا طلاق دے دے پھر بعد انقضاء عدت ہندہ زید سے نکاح کر سکتی ہے 
اگر ہمبستری کئے بغیر طلاق دے دی تو حلالہ درست نہ ہوگا اس صورت میں ہندہ زید سے نکاح نہیں کر سکتی
 طلاق اکثر غصے میں ہی دی جاتی ہے اس لئے غصے کا بہانہ کرنا بے کار ہے طلاق واقع ہونے کے لئے صرف عاقل اور بالغ ہونا شرط ہے  نیز ایک مجلس میں تین طلاق واقع ہو جانے پر جمہور صحابہ و تابعین و ائمہ اربعہ کا اجماع ہے.
جن امام صاحب نے غلط مسئلہ بتایا ان پر لازم ہے کہ صدق دل سے توبہ کریں اور آئندہ احتیاط سے کام لیں 
در مختار میں ہے 


ويقع طلاق کل زوج عاقل و بالغ ولو عبدا أو مكرها 

(در مختار کتاب الطلاق ص ٢٠٦/دار الکتب العلمیہ) 
اسی طرح رد المحتار ج ١ کتاب الطلاق ص ٤٣٨/دار الکتب العالم/الریاض میں ہے 
 ” الفتاوی الھندیہ” المعروف بہ ” فتاویٰ عالمگیری” میں ہے
 

يقع طلاق کل زوج إذا كان بالغا عاقلا سواء كان حرا أو عبدا طائعا أو مكرها كذا في الجوهرة النيرة وطلاق اللاعب والهازل به يقع وكذلك لو أراد أن يتكلم بكلام فسبق لسانه بالطلاق فالطلاق واقع كذا في المحيط 


(الفتاوی الھندیہ ج ١ کتاب الطلاق الباب الأول ص ٣٨٧/دار الکتب العلمیہ) 
 ابو حنیفۂ ہند اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
غصّہ مانعِ وقوعِ طلاق نہیں، بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے، تو اسے مانع قرار دینا گویا حکمِ طلاق کا راساً ابطال ہے۔ہاں اگر شدت غیظ و جوش غضب اس حد کو پہونچ جائے کہ اس سے عقل زائل ہو جائے خبر نہ رہے کیا کہتا ہوں زبان سے کیا نکلتا ہے تو بیشک ایسی حالت کی طلاق ہرگز نہ ہوگی 

(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٢ ص ٣٨٣)
 اسی طرح فتاویٰ فیض الرسول ج ٢ ص ١١ /دار الاشاعت فیض الرسول پر ہے

امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 
قال الشافعی ومالك ابوحنیفۃ واحمد وجماھیر العلماء من السلف والخلف یقع الثلث 
امام شافعی،امام مالک،امام ابوحنیفہ،امام احمد اور پہلے اور پچھلے جمہور علماء نے فرمایا تین طلاقیں واقع ہوں گی 

 (شرح صحیح مسلم للنووی باب طلاق الثلاث قدیمی کتب خانہ کراچی ١/٤٧٨) 
 (اسی طرح فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٢ ص ٣٧٧ پر ہے   )
 حدیث شریف میں ہے
 
من افتی بغیر علم کان اثمہ علی من افتاہ۔رواہ ابوداؤد والدارمی والحاکم عن ابی ھریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ، 
جسے بغیر علم کے فتوی دیا گیا تو اس کا گناہ فتوی والے پر ہے
اس کو ابوداؤد،دارمی اور حاکم نے ابوہریرہ رضی الله تعالٰی عنہ سے روایت کیا
سنن ابوداؤد کتاب العلم آفتاب عالم پریس لاہور ٢/١٥٩،المستدرک کتاب العلم دارالفکر بیروت ١/١٢٦ 
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور،محمدی لکھیم پور کھیری

 ( ١٩/جمادی الاولیٰ ۲٤٤١؁ھ)

About حسنین مصباحی

Check Also

شوہر بیوی کے پاس بھی نہ جاتا ہو اور طلاق بھی نہ دیتا ہو تو کیا حکم ہے؟

h سوال السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ  کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *