کرائے پر چلانے کے لئے گاڑی خریدی تو زکوٰۃ گاڑی پر ہوگی یا آمدنی پر؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 

 کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے پانچ لاکھ کی گاڑی بزنس کے لیے خریدی تو اس گاڑی پر زکوٰة ہوگی یا گاڑی کے ذریعہ جو کماٸی ہوگی اس پر زکوٰة ہوگی؟
  مدلل جواب عنایت فرماٸیں
 المستفتی  بشارت حسین عطاری جموں کشمیر 

جواب

الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
 صورت مسٸولہ میں حکم یہ ہے کہ گاڑی اگر تجارت کے لیے ہے یعنی بیچنے کے لیے خریدی ہے تو اسی پر زکوة ہوگی
اور اگر کرایہ پر چلانے کے لیے ہے تو اس پر زکوة نہ ہوگی بلکہ کرائے کی آمدنی پر ہوگی 
 فتاوی عالمگیری میں ہے
 
الزکوة واجبة فی عروض کاٸنة ما کانت اذا بلغت قیمتھا نصابا من الورق والذھب اھ

(فتاوی عالمگیری ج ١ ص ١٧٩)
 در مختار میں ہے
 

لو أسامھا للحم فلا زکوة فیھا کما لو أسامھا للحم والرکوب ولو للتجارة ففیھا زکوة التجارة اھ


(در مختار ج ٣ ص ٢٣٤/دار المعرفۃ /بیروت)
 لہٰذا گاڑی کرایہ کے لیے خریدی اور اس کا کرایہ مال نصاب جتنا ہے یا دوسرے مال کے ساتھ مل کر نصاب جتنا ہو جاۓ تو سال گزرنے کے بعد زکوة ہوگی 
 جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمة الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں مکانات پر زکوة نہیں اگر چہ پچاس کروڑ کے ہوں۔ کرایہ سے جو سال تمام پر پس انداز ہوگا اس پر زکوة آۓ گی اگر خود یا اور مال سے مل کر قدر نصاب ہو

 ( فتاوی رضویہ مترجم ج ١٠ ص ١٦١ رضا فاٶنڈیشن لاھور)
 
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد عمران خان قادری غفر لہ

نہروسہ پیلی بھیت خطیب و امام رضا جامع مسجد سمپورنا نگر کھیری یوپی 

&nbsp ١٦/جمادی الأخری ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

پہننے والے زیورات پر زکوٰۃ ہے یا نہیں، اگر ہے تو کب اور کتنی دیں؟

سوال السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *