نیٹورک مارکیٹنگ کا حکم ؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

 آن لائن پیسے کمانا کیسا جیسے کہ میں نے ایک اپلیکیشن   پر ۵۰۰ سو روپئے لگاۓ ہیں اور مجھے روزانہ ۵۰ روپے ملتے ہیں تو۔ کیا وہ پیسے لینا درست ہے؟ 
 مفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی 
 سائل۔ محمد حامد رضا
اتر پردیش بہرائچ 
 

جواب

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ


 الجواب بعون الملک الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
 یہ ایپلیکیشن نیٹورک مارکیٹنگ کا ہے اور نیٹورک مارکیٹنگ میں کئی خرابیاں پائی جاتی ہے مثلا ” بیع بہ شرط اجارہ ” اور ” اجارہ بہ شرط بیع” دھوکہ، غبن فاحش جوے بازی، استعانت علی الاثم
ان تمام خرابیوں کی وجہ سے نیٹورک مارکیٹنگ سے پیسہ کمانا ناجائز و حرام ہے 
 مجلس شرعی کے فیصلے ” میں ہے کہ یہاں دو کام ہوتے ہیں ١ مقررہ دام پر کمپنی کی اشیاء کی خریداری ٢ ممبر سازی
ممبر بننے اور آئندہ ممبر بنا کر کمیشن کا حق حاصل کرنے کے لئے خریداری شرط ہے دام کے عوض خرید و فروخت عقد بیع ہے اور ممبر سازی کر کے کمیشن حاصل کرنا عقد اجارہ ہے –
 کمپنی ممبر سازی کے لئے خریداری کی شرط رکھتی ہے یہ ” اجارہ بہ شرط بیع ” ہے اور ممبر بننے والے خریداری اس شرط پر کرتے ہیں کہ آئندہ انھیں ممبر سازی کر کے کمیشن حاصل کرنے کا حق ملے تو ان کی جانب سے یہ ” بیع بہ شرط اجارہ ہے ”
(الف) ” بیع بہ شرط اجارہ ” ہو یا ” اجارہ بہ شرط بیع ” دونوں ناجائز ہیں اس لئے کہ حدیث شریف میں بیع مع شرط کی ممانعت آئی ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے
(ب) کمپنی کی اشیاء اپنی کوالٹی اور معیار کے لحاظ سے کم دام کی ہوتی ہیں مگر انھیں بہت اونچے معیار کی اور زیادہ دام کی بتایا جاتا ہے – یہ دھوکا ہوا جسے حدیث شریف میں غش کہا گیا ہے-یہ ناجائز ہے
(ج) کسی چیز کا دام دس روپئے ہونا چاہیے مگر کوئی تجربہ کار اسے نو روپئے کی بتاتا ہے کوئی دس روپئے کی بتاتا ہے اور کوئی گیارہ روپئے کی اور کسی نے اسے پندرہ روپئے میں بیچا تو اسے غبن فاحش کہا گیا ہے – یہاں سات سو کی چیز بارہ سو یا پندرہ سو میں بیچی جاتی ہےگویا دس کی چیز سترہ یا اکیس روپئے میں دی یہ ضرور غبن فاحش ہوا اور کسی ناواقف کو غبن فاحش میں ڈالنا حرام و ناجائز ہے
(د) آئندہ ممبر بنا لینا اور کمیشن کا فائدہ پانا محض ایک امید موہوم ہے نوے فیصد لوگ اس میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ایک طرح کی جوے بازی ہے جس میں فائدہ اور نقصان دونوں کا خطرہ لگا رہتا ہے جوے بازی بھی ناجائز و حرام ہے
(ہ) پھر یہ خرابیاں ایک ہی شخص تک محدود نہیں رہتیں اگر ممبر سازی کا دائرہ بڑھتا ہے تو پھر ان خرابیوں کا دائرہ بھی اگلے افراد تک بڑھتا جائے گا اور ناجائز و حرام کا ایک لمبا سلسلہ بڑھتا جائے گا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کاروبار بے شمار مفاسد اور بے شمار گناہوں کے طویل سلسلے پر مشتمل ہے اس لئے اس کے ناجائز و حرام ہونے میں کوئی شک نہیں اس لئے مسلمانوں کے دین و مال کی خیریت اسی میں ہے کہ ایسے کاروبار سے بالکل دور رہیں اور اس جال میں ہرگز نہ پھنسیں
 ہاں جن لوگوں نے اس طرح سے کوئی چیز خریدی ہے وہ اس کے مالک ہو گئے اس کا استعمال ان کے لئے روا ہے اور جنھیں اپنی خریداری پر کوئی کمیشن ملا اسے بھی اپنے کام میں لا سکتے ہیں مگر اس معاملہ کو ختم کرنا اور اس سے بچنا ان پر واجب ہے 
 اور اگر دوسروں کو ممبر بنانے کی وجہ سے کمیشن کے حقدار ہوئے اور وہ دوسرا شخص غیر مسلم ہے تو اپنا کمیشن وصول کر کے استعمال میں لا سکتے ہیں مگر دھوکہ اور بد عہدی سے توبہ ضروری ہے اور اگر وہ دوسرا شخص مسلم ہے تو کمیشن وصول کر کے اس شخص کو واپس کر دیں اور ساتھ ہی توبہ کر کے اس عمل سے الگ ہو جائیں. واللہ تعالیٰ اعلم
 (مجلس شرعی کے فیصلے ٢٠١٨ جلد ٢ ص ٣٤١/٤٢)
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


فقیر محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور،محمدی لکھیم پور کھیری

 ٥/جمادی الاولیٰ ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *