نماز کے بعد مصلے کا کونا لپیٹنا اور ذکر واذکار کرنا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 نماز کے بعد مصلیٰ کو ایک کنارے پہ لپیٹنا اور نماز میں سلام پھرنے کے بعد آیت الکرسی اور استغفار اور کلمہ وغیرہ پڑھنا کیسا ہے اورکیوں پڑھا جاتا ہے اور کہاں سے ثابت ہے.
براۓ مہربانی قرآن و حدیث سے جواب عنایت فرمائیں فقط والسلام
سائل :کوثر رضا کوثر ۔مسکونہ داملباڑی کشنگنج بہار 

جواب

الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 مصلے کا کونا لپیٹنے میں اصلا کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ گمان کرنا کہ کونا نہ لپیٹا جائے تو اس پر شیطان نماز پڑھے گا جہالت ہے البتہ پورا مصلی لپیٹ دینا بہتر ہے 
 حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :نماز پڑھنے کے بعد مصلے کو لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں، یہ اچھی بات ہے کہ اس میں زیادہ احتیاط ہے، مگر بعض لوگ جانماز کا صرف کونا لوٹ دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہ کرنے میں اس پر شیطان نماز پڑھے گا یہ بے اصل ہے

(بہار شریعت ج ٣ ح ١٦ ص ٤٩٩ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) 
 ذکر واذکار اور اوراد و وظائف میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا حضور علیہ السلام پر درود وسلام، اپنی پریشانوں سے نجات اور گناہوں سے معافی کی دعا ہوتی ہے اسی لئے ذکر واذکار اور اوراد ووظائف پڑھے جاتے ہیں
 نماز کے بعد آیۃ الکرسی، استغفار، کلمہ اور اوراد ووظائف پڑھنا جائز ودرست، باعث اجر وثواب اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے . البتہ جن فرض نمازوں کے بعد سنت مؤکدہ ہیں ان میں فرض نماز کے بعد طویل اوراد و وظائف پڑھنے کی کراہت میں اختلاف ہے (یہاں کراہت سے مراد کراہت تنزیہی ہے) لہذا افضل ہے کہ ان فرض نمازوں کے بعد مختصر اوراد و وظائف پر اکتفاء کیا جائے. اور سنت کے بعد اوراد وظائف پڑھے جائیں. اور جن نمازوں میں فرض کے بعد سنت مؤکدہ نہیں ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ہے

 بخاری شریف میں ہے
 

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم کان یقول في دبر کل صلوۃ إذا سلم :لا الہ الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللھم لا مانع لما أعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منك الجد (باب الدعا، رقم الحدیث ٦٣٣٠)

 مشکوٰۃ شریف میں ہے 
 
عن عائشة رضی الله عنھا قالت :کان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سلم لم یقعد إلا مقدار ما یقول اللھم أنت السلام ومنك السلام تبارکت یا ذا الجلال والإكرام، رواہ مسلم

(باب الذکر بعد الصلوۃ، ص ٨٨ ،ط، مجلس البرکات) 

 شعب الایمان میں ہے 
 
من قرأ دبر کل صلوة مکتوبة آیة الکرسي لم یمنعه من دخوله الجنة إلا الموت، ومن قرأھا حین یأخذ مضجعه أمنه الله علی دارہ ودار جارہ والدویرات حوله
تخصیص آیة الکرسي بالذکر ،ج، ٤ ص، ٥٧ رقم الحدیث ٢١٧٤، ط، مکتبۃ الرشید 
 فتاویٰ شامی میں ہے
 

ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلوانى: لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف قلت: وفي حفظي حمله على القليلة، ويستحب أن يستغفر ثلاثاً ويقرأ آية الكرسي والمعوذات ويسبح ويحمد ويكبر ثلاثاً وثلاثين، ويهلل تمام المائة ويدعو ويختم بسبحان ربك

 قوله: إلا بقدر اللهم إلخ” لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت ”كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام” وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها، لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة
 وقول عائشة بمقدار لايفيد أنه كان يقول ذلك بعينه، بل كان يقعد بقدر ما يسعه ونحوه من القول تقريباً، فلا ينافي ما في الصحيحين من ”أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولاينفع ذا الجد منك الجد”وتمامه في شرح المنية، وكذا في الفتح من باب الوتر و النوافل

کتاب الصلوۃ، باب صفة الصلوۃ،مطلب ھل یفارقه الملکان ج ٢ ص ٢٤٥ /٢٤٦ : ط، دار عالم الکتب ریاض
 مرآۃ المناجیح میں ہے : تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ بعد نماز خوب اونچی آواز سے ذکر اللہ کرنا سنت ہے، اس میں اختلاف ہے کہ جن فرائض کے بعد سنتیں ہیں ان کے بعد ذکر وغیرہ کرے یا نہ کرے،صحیح یہ ہے کہ کرے مگر مختصر 

(ج ٢ ص ٨٠ ط، نعیمی کتب خانہ گجرات) 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد ذیشان مصباحی غفر لہ


دلاور پور،محمدی لکھیم پور کھیری یوپی انڈیا
 ٢٤/صفر المظفر ١٤٤٣ھ

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *